ایس سی او اجلاس : دہشتگردی کیخلاف پاکستانی مؤقف کی پذیرائی، بھارت کو دھچکا
 بھارت کو حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے مؤقف کو رکن ممالک جانب سے سراہا گیا۔
فائل فوٹو
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) بھارت کو حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے مؤقف کو رکن ممالک جانب سے سراہا گیا۔

بھارت نے اجلاس کے دوران 22 اپریل کے پہلگام واقعے پر یکطرفہ بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش کی، جسے رکن ممالک نے سختی سے مسترد کر دیا۔

اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں پہلگام واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جبکہ اس کے برعکس اعلامیہ میں بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشگردانہ حملے کی شدیدی الفاظ میں مذمت شامل تھی۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے حتمی اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ دہشتگردی پر بھارت کے خدشات کی عکاسی نہیں کرتا۔

ایک پاکستانی عہدیدار نے اجلاس کے پس منظر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت "پہلگام کے ساتھ یک طرفہ جنون" میں مبتلا نظر آیا اور اسے کسی رکن ملک کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

اس کے برعکس پاکستان نے اس پلیٹ فارم کو خطے میں اجتماعی استحکام کے فروغ کے لیے استعمال کیا، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے امن، تعاون اور انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

خواجہ آصف نے سرحد پار دہشتگردی کے خاتمے کی اپیل کی اور خاص طور پر بلوچستان کو اجاگر کیا جو بیرونی سرپرستی میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنا، جعفر ایکسپریس پر حملہ جس کی ایک واضح مثال ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ "آئیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاست کی نذر نہ کریں" انہوں نے ایس سی او ممالک پر زور دیا کہ وہ الزام تراشی سے آگے بڑھ کر تعمیری مکالمے کی راہ اپنائیں۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ پاکستان کی علاقائی ہم آہنگی کی اپیل کو اندرونی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے، جہاں بلوچستان جیسے دیرینہ شورش زدہ علاقوں میں امن کی کوششیں مکالمے اور ترقی پر مبنی ہیں۔

جیسے جیسے بھارت کو علاقائی فورمز پر سفارتی مزاحمت کا سامنا ہے ویسے ویسے پاکستان کی شمولیتی اور مفاہمتی پالیسی کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے، اس بدلتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں وہ بیانیے غالب آتے جا رہے ہیں جو مصالحت اور تعاون پر مبنی ہیں نہ کہ تصادم اور مخالفت پر۔