
بعد ازاں وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیکیورٹی، معیشت اور سماج پر بڑے اثرات مرتب ہوئے۔
افغان مہاجرین کی تعداد اور ان کے اثرات:
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں13 لاکھ 45 ہزار 582 رجسٹرڈ افغانی رہائش پزیر ہیں، جبکہ 7 لاکھ غیر قانونی افغانی رہائش پزیر ہیں ۔ان مہاجرین کا بڑا حصہ 18 سے 59 سال کی عمر کے درمیان ہے اور یہ افراد پاکستان کی معیشت اور سماج میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں غیر قانانی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد مقیم ہے.
26 ستمبر 2023 کو پاکستانی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ملک میں بسنے والے افغان مہاجرین کو فوری طور پر افغانستان واپس جانا ہوگا۔ اس فیصلے کے فوری بعد سرکاری اداروں نے گرفتاریوں کا عمل شروع کر دیا، اور ستمبر کے مہینے میں ہی 22 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدر کر دیا۔
نومبر 2023 تک پاکستانی حکومت نے تقریباً چار لاکھ مہاجرین کو ملک بدر کیا اور دسمبر 2023 سے ستمبر 2024 تک ہر مہینے اوسط 30 ہزار سے زیادہ افراد کو افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ ملک بدر کئے گئے مہاجرین میں سے 88 فیصد لوگ بلا کاغذات پاکستان میں مقیم تھے۔
ان میں سے ہزاروں ایسے بھی تھے جو یا تو کئی سالوں سے پاکستان میں مقیم تھے یا یہاں ہی پیدا ہوئے ۔ ان میں ڈھائی لاکھ سے زائد مہاجرین کی عمر 18 سال سے کم تھی اور واپس بھیجے گئے، کُل مہاجرین کا تقریباً دس فیصد حصہ پانچ سال سے چھوٹے بچوں پر مشتمل تھا۔
ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں سال 1979 سے 2001 کے دوران افغانستان میں ہونے والی جنگوں اور دیگر بحرانوں کے نتیجے میں4.4 ملین یعنی 44 لاکھ افغان باشندوں پناہ لی۔ 2021 میں امریکا کا افغانستان سے انخلا کے بعد 8 لاکھ نئے دستاویزی مہاجرین (اے سی سی ہولڈرز) پاکستان پہنچے، جبکہ غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کی تعداد میں تقریباً 7 لاکھ اضافہ ہوا.
افغان مہاجرین اور سیکیورٹی چیلنجز:
ملک میں بڑھتی دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ افغان مہاجرین کی موجودگی جس کے باعث پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، غیر قانونی سرگرمیاں اور سیکیورٹی کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں میں سے سینکڑوں ایسے نکلے جو دہشت گردوں کو پاکستان میں سہولتیں فراہم کر رہے تھے، اور ان دہشت گردوں میں سے درجنوں کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ہوئی۔ یہ دہشت گرد گروہ مہاجرین کے کیمپوں اور شہروں میں بعض اوقت پناہ لیتے ہیں ، جس سے پاکستان کو سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ سال2023 میں 517 حملے رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1099 تک پہنچ گئے، اور یہ پچھلے دس سالوں میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سالانہ تعداد میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔
سرحدی گزرگاہیں اور ان کا استعمال:
پاکستان کی سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے، تقریباً 2,670 کلومیٹر طویل ہے اور یہ سرحد خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان سمیت مختلف پاکستانی علاقوں کو افغانستان سے ملاتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کل 18 سرحدی گزرگاہیں ہیں، جن میں سے پانچ مرکزی گزرگاہیں تجارت اور سفری مقاصد کے لیے کھلی ہیں۔
ان میں سب سے اہم طورخم بارڈر جو خیبر پختونخوا میں واقع اور چمن بارڈر جو بلوچستان میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سرحدی گزرگاہوں میں خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ، بدینی اور جنوبی وزیرستان کے راستے شامل ہیں۔ یہ سرحدی گزرگاہیں نہ صرف تجارتی بلکہ افغان مہاجرین کی نقل و حرکت کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں.