بنگلا دیش طلبہ تحریک کب کیا ہوا؟
This picture depicts the riots in Bangladesh
بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پیر 5 اگست کو زبردست عوامی مظاہروں اور بیس دنوں کے تشدد میں تقریباً 300 افراد کی ہلاکت کے بعد استعفیٰ دے دیا ۔
 
تحقیق و تحریر: مہتاب عزیز 
 
بنگلا دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پیر 5 اگست کو زبردست عوامی مظاہروں اور بیس دنوں کے تشدد میں تقریباً 300 افراد کی ہلاکت کے بعد استعفیٰ دے دیا ۔
 
 سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا احتجاج شروع ہوا لیکن جب حکومت نے طلبہ کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی تو ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس تحریک میں شامل ہوگئے۔  بنگلا دیش میں حالیہ احتجاج  سرکاری ملازمتوں میں کوٹے ے خلاف تھا۔  
 
آزادی  کے خود ساختہ ہیروز کے لیے کوٹہ سسٹم کا نفاذ پاکستان سے علیحدگی کے فوری بعد ہی 1972ء میں شروع ہو گیا تھا۔ بعد میں اس کو "ہیروز کے بچوں" تک توسیع  دی گئی۔ پھر جب اس کا دائرہ  پوتوں اور نواسوں تک پھیلایا گیا ، تو نسل در نسل تک چلنے والے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ 
 
پھرپور احتجاج کےبعد حکومت نے 2018ء میں یہ کوٹہ ختم کر دیا۔ حکومت کی جانب سے کوٹہ سسٹم ختم کیے جانے کے خلاف کچھ (نام نہاد) متاثرین عدالت چلے گئے۔ جن کی درخواستوں پر ہائی کورٹ نے حکومتی حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم بحال کر دیا۔ 
 
بظاہر شیخ حسینہ کی حکومت نےکوٹہ بحالی کے فیصلے  کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی، لیکن  بنگالی طلبہ و طالبات اس اپیل کے نتائج کا انتظار کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔ انہوں نے کوٹہ کی فوری منسوخی  کے لیے ایگزیکٹو آرڈر کا مطالبہ کیا۔  اور اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
 
آئیے ان واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو شیخ حسینہ کے زوال کا باعث بنے:
 
2 جولائی:
 
 ڈھاکہ میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع ہوا۔  مختلف زمروں کی بھرتیوں میں 56 فیصد ملازمتیں مختلف زمروں کے لوگوں کے لیے مختص تھیں۔ طلبہ کے مطابق یہ امتیازی اور میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کے لیے نقصان دہ ہے۔
 
10-12 جولائی: 
 
بنگال ناکہ بندی پروگرام طلبہ کی جانب سے دارالحکومت کے مختلف اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر دھرنا دینے کے پروگرام کی وجہ سے سڑکوں، شاہراہوں اور ریلوے پر ٹریفک جام ہوگیا۔
 
13 جولائی: 
 
جب وزیر اعظم شیخ حسینہ سے ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس میں بچوں اور نواسوں (آزادی کے جنگجوؤں کے) کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد ریزرویشن کی مخالفت پر ان کے تبصرے پوچھے گئے تو شیخ حسینہ نے کہا، "وہ ایسا کیوں ہیں؟ آزادی پسندوں سے ناراض؟ آزادی پسندوں کے پوتے پوتیوں کو کوٹہ ملے گا یا راجکروں کے پوتوں کو ملے گا؟"
 
14 جولائی:
 
 وزیر اعظم کی تقریر کے بعد مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ غصے میں آگئے اور انہیں لگا کہ شیخ حسینہ کا تبصرہ ان کی طرف ہے۔ رات گئے انہوں نے مارچ کرنا شروع کر دیا اور نعرے لگانے لگے، "تم کون ہو؟ میں کون ہوں رضاکار، رضاکار! اور "میں ڈھونڈنے گیا اور حاکم بن گیا۔"
 
15 جولائی:
 
 کچھ حکومتی وزراء اور رہنما اپنے آپ کو رضاکار کہنے پر طلبہ پر تنقید کرتے ہیں۔ عوامی لیگ کے سینئر رہنما اور روڈ ٹرانسپورٹ اور پلوں کے وزیر عبیدالقادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاتر لیگ ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دے گی جو خود کو رضاکار کہتے ہیں۔
 
15 جولائی:
 
 ڈھاکہ یونیورسٹی میں چھاترو لیگ کے کارکنوں نے کوٹہ مخالف کارکنوں پر حملہ کیا۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں زخمی طلباء پر حملہ کیا۔ جھڑپ میں تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
 
16 جولائی:
 
 جھڑپیں ڈھاکہ، چٹاگانگ اور شمالی رنگ پور تک پھیل گئیں اور کم از کم چھ افراد مارے گئے۔ ڈھاکہ اور راج شاہی یونیورسٹیوں کے عام طلبہ نے بنگلا دیش چھاترا لیگ کا پیچھا کیا اور یونیورسٹی ہالز میں چھاترا لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے کمروں میں توڑ پھوڑ کی۔
 
17 جولائی:
 
 طلبہ نے حملوں میں مارے جانے والے اپنے ساتھیوں کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی کوشش کی لیکن پولیس ڈھاکہ، راجشاہی اور جہانگیر نگر یونیورسٹیوں میں ان کے اجتماعات پر حملہ کرتی ہے۔ یونیورسٹی حکام نے کیمپس کو لاک ڈاؤن کر دیا اور طلباء کو رہائش کے ہال خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔
 
17 جولائی:
 
 وزیر اعظم شیخ حسینہ کا ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب۔ انہوں نے 16 جولائی کو ہونے والے تشدد میں جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا۔
 
 انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ کوٹہ کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے (7 اگست کو آنے والے) کا انتظار کریں۔ انہوں نے طلباء سے وعدہ کیا کہ عدالتی فیصلہ انہیں مایوس نہیں کرے گا۔
 
18 جولائی:
 
 مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا، جس کے دوران ڈھاکہ اور 19 اضلاع میں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا۔ پولیس اور نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔   براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ 
 
 شاٹ گن کے  کارتوس اور ربڑ کی گولیوں کا بڑے پیمانے پر  استعمال کیا گیا۔ ہزاروں طلبہ نے بند کو نافذ کرنے کے لیے مختلف دوسرے گروپوں میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ اہم ڈھانچے جیسے قومی ٹیلی ویژن سینٹر، ڈھاکہ اور ڈھاکہ سے باہر جانے والی اہم شاہراہوں پر ٹول پلازوں کو آگ لگا دی گئی۔
 
 کئی سرکاری دفاتر کی عمارتوں پر بھی حملے کیے گئے، کاروں اور بسوں کو آگ لگا دی گئی۔ میٹرو ریل، جو شہر کے اہم انفراسٹرکچر میں سے ایک ہے، کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔
 
19 جولائی:
 
 ملک میں مزید تشدد پھوٹ پڑا۔ ڈھاکہ میں میٹرو ریل اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی اور پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 66 افراد مارے گئے۔ نرسنگدی کی ایک جیل پر  حملہ  کیا گیا اور تقریباً 900 قیدیوں کو رہا کر دیا گیا، تقریباً 80 آتشیں اسلحہ اور 1000 سے زیادہ گولہ بارود لوٹ لیا گیا۔ حکومت نے رات کے وقت کرفیو کا اعلان کیا اور ملک کی اہم تنصیبات کی حفاظت اور نظم و ضبط برقرار رکھنے میں مدد کے لیے فوج کو تعینات کیا۔
 
20 جولائی: 
 
کرفیو کے پہلے دن کم از کم 21 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کرفیو میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی گئی ہے۔ حکومت نے کوٹہ تحریک کے کارکنوں اور بی این پی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد دو دن کی عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔
 
21 جولائی:
 
 سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سرکاری ملازمتوں میں آزادی پسندوں کے خاندانوں کے لیے مختص کوٹہ کو 5 فیصد اور اقلیتوں اور تیسری جنس کے لیے 2 فیصد کرنے کا حکم دیا۔ کرفیو برقرار رہا اور مزید 7 افراد مارے گئے۔ وزیراعظم سے تینوں افواج کے سربراہان نے ملاقات کی جس میں سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
 
23 جولائی:
 
 حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں نئے کوٹے مختص کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ لیکن طلبہ تحریک کے منتظمین نے اسے مسترد کر دیا۔ اُن کہنا تھا کہ اب  بہت دیر ہو چکی ہے، ہمارے بہت زیادہ لوگ مارے گئے ہیں ۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری۔ بعض علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی۔
 
25 جولائی:
 
 امریکا، کینیڈا، اقوام متحدہ اور ایمنسٹی نے تشویش کا اظہار کیا اور کریک ڈاؤن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔  شیخ حسینہ نے فوج کی تعیناتی کے بعد اپنی پہلی عوامی نمائش کی اور جلے ہوئے میٹرو ریل اسٹیشن کا دورہ کیا۔
 
26 جولائی:
 
پولیس انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے طلبہ تحریک کے تین منتظمین کو انکے گھروں سے اٹھایا۔ بی این پی نے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔ شیخ حسینہ نے تشدد میں زخمیوں کو دیکھنے کے لیے ہسپتال کا دورہ کیا۔
 
27 جولائی:
 
 ڈھاکہ میں 14 مغربی ممالک کے سفارتی مشن نے ایک مشترکہ خط میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے طاقت کے غلط استعمال کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس روز تحریک کے مزید دو منتظمین کو انٹیلی جنس ونگ کے اہلکاروں نے اٹھایا۔ طلبہ کی گرفتاری کے لیے پولیس کی کارروائی جاری۔ شیخ حسینہ تنازع میں زخمیوں کی عیادت کرتی رہیں۔
 
28 جولائی:
 
 موبائل انٹرنیٹ دوبارہ کھل گیا لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں برقرار ہیں۔ طلبہ تحریک کے چھ منتظمین نے انٹیلی جنس ونگ کی تحویل میں رہتے ہوئے تحریک کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے بیانات پڑھے۔ لیکن دوسروں نے تحریک جاری رکھنے کا عزم کیا۔
 
29 جولائی:
 
 ملک بھر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ہائی کورٹ نے تحریک کے چھ منتظمین سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس ونگ کی سرزنش کی۔
 
30 جولائی:
 
 پولیس فائرنگ میں مظاہرین کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اساتذہ اور والدین کیمپس میں طلبہ کے ساتھ شامل ہوئے۔ ممتاز شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں۔
 
31 جولائی:
 
 حکومت متاثرین کے لیے "یوم سوگ" مناتی ہے لیکن طلبہ نے اسے مسترد کر دیا۔ طلبہ تحریک کے حامیوں نے حکومت کو مسترد کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر کو سرخ رنگ سے تبدیل کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے شراکت داری پر مذاکرات معطل کر دیے۔
 
یکم اگست:
 
 حکومت نے جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھتراشبیر اور اس سے وابستہ تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ ان پر دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ دوسری جانب  پولیس نے امتیازی سلوک مخالف طلبہ تحریک کے چھ منتظمین کو رہا کر دیا۔ اقوام متحدہ نے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی تجویز دی ہے۔
 
2 اگست:
 
 ہلاکتوں کے خلاف احتجاج جاری رہا۔ تاہم سیکورٹی اداروں کی طرف سے تشدد میں کمی دیکھنے میں آئی۔ اس روز ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔
 
3 اگست:
 
 ڈھاکہ میں ایک ریلی میں، طلبہ کے منتظمین شیخ حسینہ کے استعفیٰ اور ایک "قومی حکومت" کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ قومی حکومت قائم کی جائے جس کی سربراہی "سب کے لیے قابل قبول" ہو۔ اس روز شیخ حسینہ نے مذاکرات کی تجویز دی اور مذاکرات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی لیکن طلبہ نے اسے مسترد کر دیا۔  اسی دن عوامی لیگ اور اس کے طلبہ ونگ  نے  جوابی مارچ اور احتجاج کے منصوبے کا اعلان کیا۔
 
4 اگست:
 
ڈھاکہ اور ملک کے کم از کم 21 اضلاع میں زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد میں کم از کم 90 افراد ہلاک ہو ئے۔ مرنے والوں میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو سراج گنج میں لنچنگ میں مارے گئے تھے۔
 
 حکومت نے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔ ملک کے مختلف حصوں سے طلبہ نے حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے ڈھاکہ کی طرف مارچ کا اعلان کردیا۔ 
 
فوج اور پولیس نے مظاہرین کو متنبہ  کیا کہ وہ کرفیو کو توڑنے یا قانون کی خلاف ورزی نہ کریں۔ ایسا کرنے والوں کو موقعہ پر ہی  گولی مار دی جائے گی۔
 
5 اگست:
 
 ڈھاکہ اور آس پاس کے علاقوں سے ہزاروں لوگ کرفیو کو نظر انداز کرتے ہوئے مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہوتے رہے۔ فوج نے شروع میں ہجوم کو روکنے یا روکنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین کی تعداد  میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
 
  دوپہر تک یہ کئی لاکھ تک مظاہرین ڈھاکہ کی سڑکوں پر موجود تھے۔ جس کے بعد فوج اور پولیس مظاہرین کے سامنے سے ہٹ گئی۔سیکیورٹی پر معمود کمانڈروں نے اعلیٰ حکام کو مطلع کیا کہ تشدد سے عوام پر قابو پانا ممکن نہیں۔
 
  بنگلا دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کو ملاقات  کی  دعوت دی ۔اس ملاقات کے بعد آرمی چیف نے وزیر اعظم کو حالات سے آگاہ کیا۔ 
 
شیخ حسینہ نے اپنا استعفیٰ صدر محمد شہاب الدین کو پیش کیا۔ اپنی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ ملٹری ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی بھارت کے اگرتلہ، پھر بھارتی فوج کے جہاز میں دلی پہنچ گئیں۔
 
دوسری جانب آرمی چیف نے عوام سے ٹیلی ویژن پر خطاب میں اعلان کیا کہ صدر سے مشاورت کے بعد عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔  مظاہروں میں مارے گئے 300 افراد کے لیے انصاف کا وعدہ کیا ، مظاہریں پر زور دیا کہ وہ پرسکون ہو جائیں اور گھر چلے جائیں۔
 
تاہم مظاہرین  کے ایک گروپ نے حسینہ واجد، چیف جسٹس کی رہائشگاوں سمیت کئی دفاتر پر حملہ کیا۔
 
شیخ مجیب الرحمان کی یاد گار کے طور پر قائم میوزیم کو بھی نذر آتش کر دیا۔ ملک بھر میں شیخ مجیب کے یادگاری مجسموں کو توڑ دیا گیا ۔تمام سرکاری  دفاتر اور عمارات میں سے  شیخ حسینہ واجد اور شخ مجیب کی تصاویر کو اکھاڑ پھینکا۔