دوسری جانب بھارت کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور پاکستانی عازمین کو ویزے دینے سے مسلسل انکار عالمی سطح پر تشویش کا باعث بن رہا ہے۔
بھارت نے حال ہی میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے عرس کیلئے صرف 100 پاکستانی عازمین کو ویزے جاری کیے، جو کہ 500 کے مقررہ کوٹے سے بہت کم ہیں، جس نے بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک اور ان کے حقوق کے تحفظ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور مذہبی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بھارت میں اقلیتی کمیونٹیز کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ اپنے مذہبی اقلیتی شہریوں کی آزادیوں کا احترام کیا ہے اور انہیں اپنے مذہبی مقامات تک رسائی کی سہولت فراہم کی ہے۔
پاکستان کا کرتارپور کوریڈور اس بات کا ایک روشن اور مثبت مثال ہے۔ 2019 میں کھولا جانے والا کرتارپور کوریڈور بھارتی سکھ عازمین کو بغیر ویزے کے پاکستان کے گردوارہ کرتارپور تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس کوریڈور کے ذریعے ہزاروں بھارتی سکھوں نے گرو نانک کی یوم پیدائش جیسے مذہبی جشنوں میں شرکت کی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سکھ اور ہندو یاتریوں کا گرمجوشی سے استقبال کیا ہے اور ان کے مذہبی مقامات تک رسائی کیلئے ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے حال ہی میں سندھ کے شادانی دربار میں شیو اوتاری سنت شادارام صاحب کے 316 ویں جنم دن کی تقریب کیلئے 84 بندو یاتریوں کو سہولت فراہم کی، جس سے پاکستان کی بین المذاہب ہم آہنگی کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
پاکستانی حکام نے بندو یاتریوں کا پرتپاک استقبال کیا، انہیں ان کے مذہبی رسومات کیلئے خصوصی سفری سہولیات فراہم کیں اور ان کی واپسی 15 جنوری کو طے کی۔ یہ اقدام پاکستان کی مذہبی آزادیوں کے فروغ اور اقلیتی کمیونٹیز کے ساتھ تعاون کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کی جانب سے پاکستانی عازمین کو ویزے دینے سے مسلسل انکار نے اس کے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بین المذہبی تعلقات کی سہولت دینے کے عزم پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بھارت کا یہ اقدام نہ صرف 1974 کے پاکستان بھارت پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے عوامی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ بھارت کے اقدامات نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے اقدامات بالخصوص کرتارپور کوریڈور نے عالمی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو ایک ایسے ملک کے طور پر اجاگر کیا ہے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور بین المذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
اس کے برعکس بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک اس کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کی پالیسیوں کی حقیقت کو بے نقاب کر رہا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ اپنے مذہبی اقلیتی شہریوں کی آزادیوں کا احترام کیا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ بھارت کا ویزہ انکار اس کے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کیلئے نظراندازی کی عکاسی کرتا ہے، جس سے اس کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ان اقدامات نے بین المذہبی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے اور پاکستان کا کرتارپور کوریڈور اس کے برعکس ایک مثبت قدم ثابت ہوا ہے۔
پاکستان کی جانب سے اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کا تحفظ اور ان کے مذہبی مقامات تک رسائی فراہم کرنا ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی مذہبی آزادیوں کے فروغ میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
اس کے برعکس بھارت کے اقدامات نے نہ صرف اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی اور ثقافتی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔