
مگر ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو کسی بھی اہم منصب یا اثر و رسوخ میں حصہ نہیں مل سکا۔ پیپلزپارٹی نے وفاق میں آئینی عہدے حاصل کیے، جیسے کہ صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ، لیکن پنجاب میں ان کا اثر محدود رہا۔
پاور شیئرنگ کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات کا سلسلہ جاری ہے، خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری اور گورنر پنجاب سلیم حیدر کی جانب سے متعدد دفع کئی تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان صوبائی سطح پر کوآرڈنیشن کی کمی محسوس کی جا رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ نئے سال 2025 میں بھی پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ ن سے کسی بڑی توقعات نہیں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ ان کے تعلقات میں اعتماد کی کمی ہے اور انہیں حکومت کی پالیسیوں میں شامل کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ن لیگ نے ان کی توقعات پر پورا نہیں اُترے۔
پاور شیئرنگ کے حوالے سے متعدد ملاقاتیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں، گورنر پنجاب سلیم حیدر نے پیپلزپارٹی کے مفادات کے دفاع میں ن لیگ سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی۔ اس کے باوجود، وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کمیٹی کے قیام کے باوجود، صورتحال میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔
بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر وزیراعظم شہبازشریف نے کمیٹی بنادی لیکن تاحال رزلٹ نہ آسکا۔