
پنجاب کے اساتذہ نے صوبے بھر میں ہونے والے ٹریننگ نیڈز اسیسمنٹ (TNA) ٹیسٹ کا مکمل بائیکاٹ کیا، یہ ٹیسٹ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (SED) میں اساتذہ کی تربیت کی ضروریات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔
حکومت نے TNA ایپ تیار کی ہے جو PMIU-PESRP کی جانب سے بنائی گئی ہے تاکہ اساتذہ کی تربیت کی ضروریات کا اندازہ لگایا جا سکے، یہ ایپ MCQ پر مبنی ٹیسٹ کے ذریعے موثر آن لائن جانچ کرنے کے لئے بنائی گئی ہے تاکہ اہم تدریسی مہارتوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔اس ایپ کا مقصد ایک ہموار نیویگیشن اور ٹیسٹنگ کے تجربے کو یقینی بنانا ہے تاکہ پیشہ ورانہ ترقی کے اہم شعبوں کی شناخت کی جا سکے۔
محکمہ نے صوبے میں ٹیسٹ کے لیے 720 مراکز قائم کیے تھے اور ہر مرکز پر 60 اساتذہ نے ٹیسٹ میں شرکت کرنی تھی، تقریباً 43,000 پرائمری سکول اساتذہ (PSTs) کو اس ٹیسٹ میں شرکت کے لیے بلایا گیا تھا، TNA ٹیسٹ کو گزشتہ جمعہ سے شروع کیا جانا تھا اور یہ ہفتے اور اتوار تک جاری رہنا تھا۔
جنرل سیکرٹری پنجاب ٹیچرز یونین رانا لیاقت نے نجی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں صرف 80 اساتذہ نے ٹیسٹ میں شرکت کی، اساتذہ نے مکمل ہڑتال کی اور تمام مراکز خالی رہے، ٹیسٹ انگریزی میں تیار کیا گیا تھا اور تیاری کا کوئی وقت نہیں دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 30 سے 40 فیصد اساتذہ اپنے فون پر اینڈرائیڈ ایپلیکیشن استعمال نہیں کر سکتے تھے اور وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے فیس بک اور واٹس ایپ سے بھی منسلک نہیں تھے۔
رانا لیاقت نے کہا کہ اساتذہ کو ٹیسٹ کے لیے صرف 3 دن پہلے ہدایت دی گئی تھی اور ان کے سکولوں میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں تھی، حکومت سکولوں کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پہلے ہی 13,000 سکولوں کو بیچ چکی ہے، جو اساتذہ ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوں گے انہیں نوکریوں سے نکالا جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اساتذہ کو ٹیسٹ کی تیاری کے لیے وقت دیا جانا چاہیے تھا، حکومت پہلے ہی 14,000 ایجوکیٹرز کو ریگولرائز نہیں کر رہی جو کئی سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں، حکومت انہیں چھٹیوں کی نقد ادائیگی بھی فراہم نہیں کر رہی۔
دوسری جانب وزیر برائے سکول ایجوکیشن پنجاب رانا سکندر حیات نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ یونینز اساتذہ کو غلط معلومات فراہم کر رہی ہیں اور وہ ہمیشہ ذاتی مفادات کے لیے ان کے پاس آتی ہیں، نظام احتساب ہونا چاہیے کیونکہ 10 مرلے کے پرائیویٹ سکول میں 1,500 طلباء کا اندراج ہے جبکہ 20 کنال کے پبلک سکول میں 250 طلباء ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سکول کے اساتذہ کی تنخواہیں پرائیویٹ سکول کے اساتذہ سے دوگنی ہیں، میں ان اساتذہ سے محبت کرتا ہوں جو قابل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 80 فیصد محنتی اساتذہ ہیں اور انہوں نے ان کے لیے انعامات کا اعلان کیا ہے لیکن نااہل اساتذہ الزامات لگا رہے ہیں، میں نے وزیر بننے سے پہلے کسی بھی استاد کو نہیں جانا، وہ جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں،
انہوں نے کہا کہ حکومت نے منتقلی اور پوسٹنگ کے عمل کو شفاف طریقے سے کیا ہے اور کسی کو بھی کسی بھی پوسٹنگ کے لیے رشوت دینے کی ضرورت نہیں، تقریباً 10 سے 15 فیصد اساتذہ جو یونین سے منسلک ہیں یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ حکومت سکولوں کی نجکاری کر رہی ہے، ہم نے ایک بھی سکول کی نجکاری نہیں کی اور نہ آئندہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹیسٹ اساتذہ کی قابلیت جانچنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اگر کوئی کمزوریاں ملیں تو انہیں تربیت دی جائے گی، ہر سال 600 ارب روپے کے ٹیکس دہندگان کے پیسے تعلیم پر خرچ کیے جا رہے ہیں اور انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ حکومت اتنے پیسوں کے خرچ کے بعد بچوں کے لیے معیاری تعلیم یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
رانا سکندر حیات نے کہا کہ وہ سکولوں کی بہتر انتظامیہ اور معیار کے لیے آؤٹ سورس کر رہے ہیں، یہ نجکاری نہیں ہے، حکومت 50 ہزار سکولوں میں سے 13 سے 15 ہزار سکولوں کی آؤٹ سورسنگ کر رہی ہے اور باقی 35 ہزار سکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان یونین کے رہنماؤں کی پروفائلنگ شروع کر دی ہے جو حکومت سے سالانہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور 50 دن سے زیادہ سکول نہیں جاتے۔



