آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟
October, 3 2024
اسلام آباد:(ویب ڈیسک)آرٹیکل 63 اے پاکستان کے آئین کا ایک اہم حصہ ہے جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے عمل کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس آرٹیکل کا بنیادی مقصد اراکین اسمبلی کو پارٹی پالیسی کے تابع رکھنا ہے تاکہ وہ پارٹی کی ہدایات سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت یا مخالف گروہ کو ووٹ نہ دے سکیں۔ اگر کوئی رکن اسمبلی اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی اسمبلی رکنیت ختم ہو سکتی ہے۔
صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ سے ووٹ روکنے کا سوال
فروری 2022 ءمیں، اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ کار ہے جس سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کو ووٹ ڈالنے سے ہی روکا جا سکے؟ اس صدارتی ریفرنس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کو نا صرف نااہل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ووٹ کو بھی شمار ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: ووٹ شمار نہیں ہو گا
سپریم کورٹ نے 17 مئی 2022 ء کو اس ریفرنس پر 3-2 کی اکثریت سے فیصلہ دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، اور اسے اسمبلی رکنیت سے نااہل کر دیا جائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے یہ فیصلہ کیا۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اس فیصلے کی حمایت کی، جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس سے اختلاف کیا۔
اختلافی نوٹ: آئین کی دوبارہ تحریر کا معاملہ
بنچ کے اختلاف کرنے والے ججوں کا موقف تھا کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا طریقہ کار پہلے سے واضح اور جامع ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی نیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تو یہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ووٹ شمار ہی نہیں ہو گا تو نااہلی کا سوال کیسے پیدا ہوگا۔
قانونی ماہرین کی رائے: ووٹ کی اہمیت اور نااہلی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو تبدیل کرنے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کو شمار نہ کرنے اور رکن کی نااہلی دونوں کا بیک وقت ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کو دوبارہ لکھنے کا اختیار عدالت کے بجائے مقننہ کے پاس ہونا چاہیے۔
آئینی ترامیم: حکومت کا مؤقف
شہزاد شوکت نے بتایا کہ حکومت نے آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں آرٹیکل 63 اے میں تبدیلی کی تجویز دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست کو سن لیا جاتا ہے تو آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی، اور اگر اس فیصلے کو تبدیل کر دیا گیا تو یہ محض ایک درستگی ہو گی۔
ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ: علی ظفر کا مؤقف
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو ریورس کرتی ہے تو ہارس ٹریڈنگ کے دروازے دوبارہ کھل جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے اراکین اسمبلی نااہل ہوتے تھے لیکن ان کا ووٹ شمار ہوتا تھا۔ اگر اس فیصلے کو تبدیل کیا جاتا ہے تو وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی میں آ جائیں گے، جس سے ہارس ٹریڈنگ کی روایت زندہ ہو جائے گی۔
آئینی تشریح یا دوبارہ تحریر؟
علی ظفر نے اس سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ لکھا نہیں بلکہ اس کی تشریح کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی چیز پر مکمل پابندی ہے تو اسے جزوی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر فیصلے کو ریورس کیا گیا تو اراکین اسمبلی پارٹی لیڈر کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈال کر نااہل ہو جائیں گے، لیکن پھر سے منتخب ہو کر ہارس ٹریڈنگ کو جاری رکھیں گے۔
سماعت کے وقت پر سوال: امان اللہ کنرانی کا مؤقف
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اس کیس کے سماعت کے وقت پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیس اس وقت سماعت کے لیے مقرر ہونا چاہیے تھا جب یہ ایشو زندہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت اس فیصلے کی بنیاد پر تبدیل کی گئی، اور اب سماعت کے لیے کیس کا مقرر ہونا بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
سیاسی مقاصد اور آئینی ترامیم:
امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ حکومت آئینی ترامیم کرنا چاہ رہی ہے اور اگر یہ فیصلہ ریورس کیا گیا تو حکومت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ووٹ توڑ کر قانون سازی کروا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین سازی اتفاق رائے سے اور نیک نیتی سے ہونی چاہیے۔
آئینی بحران اور قانونی مستقبل
آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے سیاسی اور آئینی مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے کی نظرثانی اور آئینی ترامیم کے حوالے سے جاری بحث یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون سازی اور عدلیہ کے کردار میں توازن کی ضرورت ہے۔