چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے، ہماری نسلوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے خاندان کا سفر کٹھ پتلی سے شروع نہیں ہوتا، آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے، اگر ہم 1973 کے آئین کو اصل صورت میں بحال کریں گے تو اسٹیٹس کو کا کیا ہوگا، ہمارا ڈیموکریسی کا کنٹرول کیا ہوگا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اگر یہ لوگ 58 (2) (بی) آئین سے نکالیں گے تو آپ (سابق) چیف جسٹس افتخار چوہدری کو دے دیں، اگر ان کو سیاست سے الگ رکھنا ہے تو کسی نہ کسی بہانے پر 62، 63 پر نااہل کر دیں، پوری آزاد عدلیہ نے ہماری جمہوری سفر میں، 30 سال کی جدوجہد کرنے کے بعد 18ویں ترمیم اور 1973 کی بحالی کے بعد ماشااللہ ایسی مثالیں قائم کیں۔
انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ آج بہت برے حالات ہیں، لیکن حالات اس وقت بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا فرعون بیٹھا تھا جس کے خلاف آپ کچھ بول ہی نہیں سکتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ توہین عدالت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی جج کے خلاف بولیں تو آپ کو زندگی بھر کیلئے سزا ملے گی۔ یہ اظہار خیال کی آزادی ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دیں،آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں،آپ 18ویں ترمیم کو 19ویں ترمیم میں تبدیل کریں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں۔