پاکستان کے آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد
September, 30 2024
اسلام آباد:(ویب ڈیسک) انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے "پاکستان کے قدیم آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کی حفاظت اور فروغ کے لیے تجاویز پیش کرنا تھا۔
افتتاحی سیشن اور مہمانان خصوصی کی شرکت:
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن کے سیکرٹری حسن ناصر جامی نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ سفیر سہیل محمود، جو آئی ایس ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، نے خیر مقدمی کلمات پیش کیے، جبکہ کانفرنس کا تعارف ڈاکٹر طلعت شبیر، ڈائریکٹر چائنا پاکستان اسٹڈی سینٹر نے کیا۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین نے تاریخ اور ورثے کی اہمیت پر زور دیا۔
قومی سلامتی اور ورثہ: سینیٹر مشاہد حسین کا خطاب
سینیٹر مشاہد حسین نے اپنی تقریر میں کہا کہ تاریخ اور ورثہ کسی بھی قوم کی طاقت کے ذرائع ہوتے ہیں اور قومی سلامتی کو جغرافیائی سیاست اور جیو اکنامکس سے بڑھ کر قومی ثقافت، تاریخ، اور ورثے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے پاکستان کے سیاحتی اور تاریخی مقامات کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ پاکستان یونیسکو کے چھ عالمی ثقافتی ورثوں کا گھر ہے۔
کرتارپور راہداری اور مذہبی سیاحت:
سینیٹر مشاہد حسین نے کرتارپور راہداری کو بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک عظیم مثال قرار دیا اور کہا کہ یہ راہداری پاکستان کی ثقافتی سفارت کاری کا ایک سنگ میل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدھ مت اور سکھ مت سے منسلک مذہبی اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو ایک اہم سیاحتی مقام کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
ایڈونچر ٹورازم اور پاکستانی کھانوں کی اہمیت:
سینیٹر مشاہد حسین نے ایڈونچر ٹورازم کے فروغ کی بات کی اور کہا کہ پاکستان کے متنوع مناظر اور بیرونی سرگرمیاں عالمی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کھانوں کا تعارف بھی سیاحوں کے تجربے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
سفیر سہیل محمود کا پیغام: پاکستان کا شاندار ورثہ
سفیر سہیل محمود نے پاکستان کے ہزار سال پرانے، کثیرالجہتی آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس میں وادی سندھ اور گندھارا کی تہذیبیں شامل ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر مورٹیمر وہیلر کی کتاب "پاکستان کے 5000 سال" کا حوالہ دیا اور کہا کہ پاکستان کی سرزمین اور اس کے لوگ مسلسل تبدیلی اور ترقی کے سفر پر گامزن ہیں۔
پاکستان کے ورثے کی عالمی اہمیت:
سفیر سہیل محمود نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کے شاندار ورثے کی کہانی کو دنیا کے سامنے لانا اور ان تاریخی مقامات اور نوادرات کی بہترین دیکھ بھال کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ثقافتی ورثہ عالمی امن اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
نوجوانوں اور میڈیا کا کردار:
سفیر سہیل محمود نے زور دیا کہ پاکستان کے ورثے کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پروفائل کو ایک اعلیٰ ثقافتی مقام کے طور پر پیش کرنے کے لیے ایک میڈیا مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر اس کی شناخت بن سکے۔
ثقافتی سفارت کاری اور سیاحت کا فروغ:
ڈاکٹر طلعت شبیر نے کانفرنس کے تعارفی کلمات میں پاکستان کے بھرپور ثقافتی ورثے اور تاریخی میراث پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے موہنجو داڑو اور ٹیکسلا جیسے مشہور آثار قدیمہ کے مقامات کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ پاکستان کی قومی شناخت اور ثقافتی تنوع کی علامت ہیں۔
ورثے کا تحفظ اور عالمی امن:
ڈاکٹر طلعت شبیر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے قدیم تہذیبوں کا ورثہ عالمی امن اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کو ایک اجتماعی ذمہ داری قرار دیا اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔
سیکرٹری حسن ناصر جامی کا پیغام: قدیم تہذیبوں کی حفاظت
حسن ناصر جامی نے وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں بتایا اور اس کی جدید شہری منصوبہ بندی اور صفائی کے نظام کو اجاگر کیا۔ انہوں نے دیگر قابل ذکر تہذیبوں جیسے مہر گڑھ اور گندھارا کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ پاکستان کا ثقافتی ورثہ دنیا کی عظیم تہذیبوں میں شامل ہے۔
حکومتی اقدامات اور سرمایہ کاری
سیکرٹری حسن ناصر جامی نے حکومت کی جانب سے ثقافتی مقامات کے تحفظ کے لیے بنیادی ڈھانچے، تحقیق، اور بین الاقوامی تعاون میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات پاکستان کی تاریخی اہمیت کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں اور مقامی کمیونٹیز کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔
کانفرنس کے مستقبل کے لائحہ عمل
کانفرنس میں پاکستان کے آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے کی حفاظت اور فروغ کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔ یہ تجاویز قومی سطح پر ایک جامع حکمت عملی بنانے، بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے، اور پاکستان کے سافٹ امیج کو بہتر بنانے پر مرکوز تھیں۔ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سیاحت اور ثقافت کو بہتر بنانے کے لیے پائیدار طریقے اپنائے جائیں تاکہ پاکستان کی تاریخی عظمت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا سکے۔