یہ گاؤں اپنی اسلامی روایات اور اصولوں کی پابندی کے حوالے سے منفرد ہے۔اس گاؤں میں امام مسجد مولانا محمد امین گزشتہ 7 سال سے تمام اہم سماجی اور انتظامی فیصلے کر رہے ہیں،ان کی رہنمائی میں گاؤں کے لوگ نہ صرف اپنے مسائل حل کرتے ہیں بلکہ وہ کئی معاملات میں ایک خودمختار اور منظم نظام چلا رہے ہیں۔
گاؤں کے لوگ امام مسجد کی بات کو حتمی سمجھتے ہیں اور ان کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ امام مسجد صاحب نے سگریٹ نوشی، شادی بیاہ پر گانے بجانے اور آتش بازی جیسی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ گزشتہ 7 سال سے گاؤں میں کسی بھی دکان پر سگریٹ فروخت نہیں ہوئے،تاہم گاؤں کے تمام بڑے بزرگوں کو اپنے گھروں میں حقہ پینے کی اجازت دی گئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام مسجد کا نظام لچکدار اور لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔
امام مسجد مولانا محمد امین کے کہنے پر شادی بیاہ یا دیگر خوشی کے مواقع پر ڈھول، گانے بجانے، اور آتش بازی جیسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے،یہ پابندیاں گاؤں والوں نے بخوشی قبول کر لی ہیں اور ہر تقریب کو سادگی سے منایا جاتا ہے۔
گاؤں کی صفائی کا انتظام خود گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سنبھال رکھا ہے۔ یہاں ٹی ایم اے (ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن) کا کوئی خاکروب موجود نہیں، جس کے باعث گاؤں کے نوجوانوں نے مل کر ایک ویلفیئر سوسائٹی قائم کی ہے۔ یہ سوسائٹی نہ صرف صفائی کا خیال رکھتی ہے بلکہ دیگر سماجی فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش ہے۔
گاؤں میں 10 ہزار سے زائد کی آبادی ہے،مگر یہاں صرف ایک ہی مرکزی مسجد ہے،جہاں تمام لوگ نماز جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔گاؤں میں اذان بھی صرف اسی مرکزی مسجد میں دی جاتی ہے، جو کہ تمام مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے نشر ہوتی ہے،جس سے لوگوں میں اتحاد اور یکجہتی کا ماحول قائم رہتا ہے۔
یہ گاؤں بلاشبہ ہماری شاندار اسلامی ثقافت اور تہذیب کا آئینہ دار ہے،امام مسجد کی رہنمائی میں گاؤں کے لوگ ایک مثالی اور فلاحی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان کی اجتماعی کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اگر نیک نیتی اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کام کیا جائے تو ہر گاؤں اور شہر کو اسی طرح منظم اور فلاحی مرکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔