وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف دن رات پاکستان کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں،حکومتی پالیسوں وجہ سے مہنگائی کم ہوکر سنگل ڈیجٹ میں آگئی،ایکسپورٹ 29 فیصد بڑھی،آئی ٹی شعبے کی برآمدات میں بھی واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا،ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر موجودہ صورتحال میں بلند ترین سطح پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نان فائلرز بہت سی چیزیں نہیں کرسکیں گے،گاڑیاں، پراپرٹی کی خریداری نہیں سکیں گے،اس کے علاوہ کرنٹ بینک اکاؤنٹ اور رقم نکالنے کے معاملات میں ان کو بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،جبکہ ہم دیکھیں گے فائلرز نے کیا ظاہر کیا اور اصل اثاثے کیا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے 3 لاکھ مینوفیکچرز ہیں،جس میں سے 14 فیصد سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹرڈ ہیں،3 لاکھ ہول سیلرز ہیں جس میں 25 فیصد سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹرڈ ہیں،مینوفیکچرز کو صرف رجسٹرڈ ہول سیلرز کو ہی فروخت کی اجازت ہوگی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکنالوجی کو بھرپور استعمال کیا جائے گا،ہماری کوشش ہو گی کہ ٹیکس جمع کرنے والوں اور کاروباری شخصیات کے درمیان کم سے کم مداخلت ہو،اس میں آر ایف آئی ڈی، ویڈیو اینالیٹکس یہ ساری چیزیں لیکر آئیں گے تاکہ اس میں انسانی مداخلت کم ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسداد اسمگلنگ کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں کا 750 ارب کا ٹیکس امپیکٹ ہے، برآمد کنندگان کیلئے نیا نظام بھی لارہے ہیں،جس میں کلیئرنگ ایجنٹس کے لیے پوائنٹ سسٹم لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر میں آڈٹ کی صلاحیت کو بڑھانا ہے، 2 ہزار چارٹڈ اکاؤنٹینٹس کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے انگیج کرنا ہے تاکہ ٹیکس فائلنگ میں جو مطلوبہ فرق ہے اس کو بھی ختم کیا جاسکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس وصول کرنے والوں کیلئے شدید سخت احتساب کا نظام نافذ کیا جائےگا، ٹیکس ادا کرنے والوں کے خلاف عوامی سماعت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور فیصلہ کیس کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اگر اس پروگرام کو آئی ایم ایف کا آخری قرض پروگرام بنانا ہے تو ہمیں اس ملک میں نئے طریقہ کار اپنانے اور رائج کرنے ہوں گے،ملک میں معیشت کے ڈھانچے کو بنیادی طور پر بدلنا ہوگا،ان اقدامات سے تھوڑے وقت کیلئے مشکلات آئیں گی لیکن اگر ہمیں پائیدار ترقی کے راستہ پر جانا ہے تو جو مشکل فیصلے لیے گئے ہیں ان کو نافذ بھی کیا جائے گا۔