اسپیکر پنجاب اسمبلی کا مخصوص نشستوں پر نئی قانون سازی کے اطلاق کا مطالبہ
Speaker Punjab Assembly demands application of new legislation on specific seats
لاہور:(سنو نیوز)پنجاب اسمبلی کے اسپیکر، ملک احمد خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں پارلیمان سے منظور شدہ الیکشن ترمیمی ایکٹ کی روشنی میں مخصوص نشستوں پر حالیہ فیصلوں کے اطلاق کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
 
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے مطابق، پارلیمان کی نئی قانون سازی کے بعد سابقہ قانونی وضاحت کی بنیاد پر فیصلے کرنا مناسب نہیں ہے، اور اس سے موجودہ سیاسی منظر نامے میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
 
خط کا پس منظر:
 
ملک احمد خان نے اپنے خط میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ارکان کو سیاسی جماعت میں شمولیت کا موقع دیا گیا تھا۔
 
 انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے یہ ارکان پہلے ہی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کے تحت انہیں دوبارہ جماعت کی تبدیلی کا موقع فراہم کیا گیا ہے، جس سے قانونی اور آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
 
الیکشن ترمیمی ایکٹ اور نئی قانون سازی:
 
خط میں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے مزید وضاحت کی کہ پارلیمان نے الیکشن ترمیمی ایکٹ منظور کر لیا ہے، جو صدر پاکستان کی منظوری کے بعد گزٹ آف پاکستان میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس نئے قانون کے مطابق، مخصوص نشستوں کے معاملے پر کام کرنے کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے اور نئی قانون سازی کی روشنی میں فیصلے کیے جانے چاہئیں، نہ کہ سابقہ قانونی وضاحت کی بنیاد پر۔
 
سنگین صورتحال کا خدشہ:
 
ملک احمد خان نے الیکشن کمیشن کو تنبیہ کی کہ اگر پارلیمان سے منظور شدہ نئے الیکشن ترمیمی ایکٹ کے بجائے پرانی قانون سازی پر عملدرآمد کیا جاتا رہا تو اس سے پیچیدہ اور سنگین صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ 
 
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو پارلیمان کی منظور شدہ ترامیم کا احترام کرتے ہوئے، نئے قوانین کے مطابق کام کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی آئینی یا قانونی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں۔
 
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے خط کے ذریعے زور دیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فوری طور پر اس معاملے پر غور کرنا چاہیے اور نئی قانون سازی کے مطابق اقدامات اٹھانے چاہئیں، تاکہ مخصوص نشستوں سے متعلق معاملات کو حل کیا جا سکے اور آئینی بحران سے بچا جا سکے۔