مخصوص نشستیں: حکومت کا عدالتی فیصلہ ماننے سے انکار؟
مخصوص نشستیں: حکومت کا عدالتی فیصلہ ماننے سے انکار؟
اسلام آباد: (سنو نیوز) پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے، کیا حکومت کی جانب سے مجوزہ قانون سازی سے عدالتی فیصلہ غیر موثر ہو جائے گا یا نئی قانونی جنگ کا آغازہوگا؟ قانونی ماہرین کا ملے جلے ردعمل کا اظہار۔

 سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کا فیصلہ، الیکشن کمیشن تاحال عملدرآمد نہ کرسکا، حکومت کا بھی بھرپور جوابی وار، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پارلیمان میں لے آئی۔

سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے 80 اراکین کو تحریک انصاف کا رکن تسلیم کیا اور مخصوص نشستیں بھی واپس کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے 80 میں صرف 39 اراکین کوپی ٹی آئی کا تسلیم کیا جبکہ پارٹی ٹکٹ جمع نہ کروانے والے 41 اراکین کے حوالے سے رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔ ایسے میں وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل پارلیمان میں لے آئی ہے۔

 قانونی ماہرین کا کہنا ہے بلاشبہ پارلیمان سپریم ہے لیکن عدالت ایسی کسی بھی قانون سازی کو ٹھوس وجوہات پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امورمجوزہ قانون کی منظوری دے چکی ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد بل قانون بن جائیگا۔

قانون بن جانے کے بعد کوئی بھی رکن پارٹی سے وابستگی تبدیل نہیں کرسکے گا جبکہ مقررہ مدت کے اندر فہرست جمع نہ کرانے والی جماعت، مخصوص نشستوں کی بھی اہل نہیں ہوگی۔ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2017سے نافذ العمل ہوگا۔ ایسے میں تحریک انصاف باقی 41 نشستوں کیساتھ مخصوص نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی اور ایوان زیریں میں حکمران اتحاد کی 2 تہائی اکثریت برقرار ہے گی۔