
قطر سے تعلق رکھنے والے شاہد رفیق نامی شخص نے ان پر اور ان کی بہن مائرہ خان پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
شاہد رفیق کے مطابق وہ 2009 ء میں قطر سے واپس پاکستان آئے تھے تاکہ لاہور میں پراپرٹی خرید سکیں۔ اس دوران ان کی ملاقات مائرہ خان سے ہوئی، جو ایک رئیل اسٹیٹ ڈیلر تھیں۔ مائرہ نے انہیں پراپرٹی میں سرمایہ کاری کے بجائے اپنی بہن ریما خان کی فلم ’لو میں گم‘ میں سرمایہ کاری کی تجویز دی۔
شاہد رفیق کا کہنا ہے کہ مائرہ خان نے انہیں 50 سے 60 لاکھ روپے فلم میں لگانے پر قائل کیا اور یقین دلایا کہ انہیں اچھا منافع ملے گا۔ ریما خان سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے فلم کے لیے مطلوبہ رقم فراہم کر دی۔ تاہم، ان کے مطابق، اس کے بعد مزید پیسوں کی مانگ شروع ہو گئی۔
شاہد رفیق کا دعویٰ ہے کہ فلم کی شوٹنگ کے دوران انہیں ملائیشیا بھی بلایا گیا، جہاں وہ 20 سے 25 دن تک فلمی ٹیم کے ساتھ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم مکمل ہونے کے بعد رقم کی واپسی کے بجائے مزید سرمایہ مانگا گیا۔
شاہد رفیق نے دعویٰ کیا کہ ریما خان نے ان سے ایک معاہدہ کیا، جس کے شواہد اور بینک اسٹیٹمنٹ ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن بعد میں ریما خان نے ان پر 20 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ “یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ فراڈ کس نے کیا ہے،” شاہد رفیق نے کہا۔
عدالتی کارروائی:
شاہد رفیق کے مطابق انہوں نے سول کورٹ میں مقدمہ دائر کیا، جہاں جج نے لکھا کہ ریما خان نے 2 کروڑ 10 لاکھ روپے کا فراڈ کیا ہے۔ شاہد رفیق کا دعویٰ ہے کہ ریما خان سول اور سیشن کورٹ میں یہ کیس ہار چکی ہیں، اور اب ہائی کورٹ میں اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق عدالت نے ریما خان کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے، لیکن وہ مختلف درخواستوں کے ذریعے تاخیر کر رہی ہیں۔
ریما خان کا پس منظر:
ریما خان پاکستان کی مشہور فلمی شخصیت ہیں، جو اداکاری، ہدایت کاری اور پروڈکشن کے شعبوں میں اپنی خدمات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ انہوں نے ’بلندی‘، ’نکاح‘، ’ہاتھی میرا ساتھی‘، اور ’چور مچائے شور‘ جیسی فلموں میں کام کیا ہے۔
شاہد رفیق کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا کیس جیتنے کے لیے پُرعزم ہیں اور ان کے پاس تمام ضروری شواہد موجود ہیں۔ دوسری طرف، ریما خان کی جانب سے ان الزامات پر کوئی تازہ بیان سامنے نہیں آیا۔ اس مقدمے کا حتمی فیصلہ وقت ہی بتائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔