پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز، جسے کبھی ایشیا کی بہترین ایئرلائن کہا جاتا تھا، گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل زوال، خسارے اور بدانتظامی کی علامت بنی رہی ہے، یہ ادارہ صرف ایک فضائی کمپنی نہیں بلکہ پاکستان کی عالمی شناخت، ریاستی وقار اور اسٹریٹجک خودمختاری سے جڑا ہوا ایک قومی اثاثہ ہے، ایسے ادارے کی نجکاری محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک قومی سمت کے تعین کا معاملہ ہوتا ہے۔
اسی پس منظر میں عارف حبیب کنسورشیم کی جانب سے پی آئی اے کی خریداری کے لیے 135 ارب روپے کی کامیاب بولی کو صرف ایک مالی کامیابی کے طور پر نہیں بلکہ ایک قومی اعتماد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
یہ بولی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان شدید معاشی دباؤ، قرضوں کے بوجھ اور عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط کا سامنا کر رہا ہے، ایسے حالات میں کسی مقامی بزنس گروپ کا آگے بڑھ کر ایک خسارے میں ڈوبے قومی ادارے میں بھاری سرمایہ کاری کرنا محض کاروباری رسک نہیں بلکہ پاکستان پر یقین کا اظہار ہے۔
پی آئی اے کی ناکامی کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں، سیاسی مداخلت، غیر ضروری بھرتیاں، یونین پریشر، ناقص گورننس، اور فیصلوں میں تاخیریہ سب عوامل مل کر ایک مضبوط ادارے کو کمزور کرتے چلے گئے، حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کو نقصان کسی ایک حکومت یا ایک دور میں نہیں پہنچا بلکہ یہ ایک ادارہ جاتی زوال تھا جو دہائیوں پر محیط رہا۔
پی آئی اے کی نجکاری کا حالیہ عمل اس اعتبار سے قابلِ تعریف ہے کہ اس میں اوپن بڈنگ، براہ راست نشریات اور واضح قواعد و ضوابط اپنائے گئے۔ کم از کم قیمت 100 ارب روپے مقرر کی گئی اور مقابلے میں کئی بڑے نام سامنے آئے۔
لکی گروپ، ایئر بلیو اور عارف حبیب کنسورشیم جیسے بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی نے یہ ثابت کیا کہ یہ سودا کمرے کے اندر نہیں بلکہ مارکیٹ کے سامنے طے پایا، ایسے شفاف ماحول میں عارف حبیب گروپ کی 135 ارب روپے کی سب سے بڑی بولی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کامیابی کسی رعایت یا سیاسی پشت پناہی کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص کاروباری اعتماد کی بنیاد پر حاصل کی گئی۔
عارف حبیب گروپ کا شمار پاکستان کے ان چند کاروباری اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف منافع نہیں کمایا بلکہ ادارے تعمیر کیے، اسٹاک مارکیٹ میں قیادت، فاطمہ فرٹیلائزر ز جیسے صنعتی منصوبے، تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری اور رئیل اسٹیٹ میں طویل المدتی منصوبہ بندی یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ گروپ شارٹ ٹرم گین کے بجائے لانگ ٹرم ویژن رکھتا ہے۔
پی آئی اے جیسے ادارے کو بھی اسی سوچ کی ضرورت ہے، یہاں فوری منافع ممکن نہیں بلکہ پہلے ساکھ، معیار، وقت کی پابندی اور سروس کو بحال کرنا ہوگا، عارف حبیب گروپ کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے کہ وہ اداروں کو پروفیشنل مینجمنٹ کے ذریعے چلاتا ہے نہ کہ شخصیات یا سیاسی وفاداریوں کے سہارے۔
اس نجکاری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پی آئی اے کسی غیر ملکی کمپنی یا سرمایہ کار کے ہاتھ نہیں گئی، ایک قومی ایئرلائن کا کنٹرول ملک کے اندر رہنا اسٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہم ہے، حساس روٹس، ڈیٹا اور عالمی فیصلے اگر بیرونی ہاتھوں میں چلے جاتے تو ریاستی خودمختاری پر سوال اٹھتے، عارف حبیب کنسورشیم کی کامیابی سے یہ خطرہ ٹل گیا ہے، یہ فیصلہ نہ صرف معاشی بلکہ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے بھی پاکستان کے حق میں جاتا ہے۔
پی آئی اے کے ہزاروں ملازمین اس فیصلے کو تشویش کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں جو فطری امر ہے تاہم اگر تاریخ دیکھی جائے تو نجی شعبے کی بہتر مینجمنٹ نے اکثر اداروں میں کارکردگی کو بہتر بنایا ہے، اصل سوال ملازمتوں کا نہیں بلکہ ادارے کی بقا کا تھا، اگر پی آئی اے اسی طرح خسارے میں چلتی رہتی تو انجام سب کے سامنے تھا۔
ایک مستحکم پی آئی اے نہ صرف ملازمین کے لیے بہتر مستقبل لا سکتی ہے بلکہ مسافروں، سیاحت، تجارت اور قومی وقار کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ حکومت نے پی آئی اے کے صرف 75 فیصد حصص فروخت کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست مکمل طور پر الگ نہیں ہوئی بلکہ ایک نگران شراکت دار کے طور پر موجود رہے گی، یہ ماڈل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قومی مفاد، سروس کے معیار اور اسٹریٹجک فیصلوں پر ریاست کی نظر برقرار رہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کو نہ تو اندھی مخالفت کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور نہ ہی غیر مشروط حمایت کے ساتھ، یہ ایک موقع ہے پاکستان کے لیے بھی اور عارف حبیب گروپ کے لیے بھی، اگر یہ گروپ اپنی ماضی کی روایت کے مطابق ادارہ سازی، شفافیت اور پیشہ وارانہ معیار کو ترجیح دیتا ہے تو پی آئی اے دوبارہ خطے کی ایک قابلِ فخر ایئرلائن بن سکتی ہے۔
یہ سودا محض 135 ارب روپے کا نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل پر ایک شرط ہے اور اس شرط میں پہلی بار ریاست کے ساتھ ایک ایسا شراکت دار کھڑا ہے جس نے ماضی میں بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف منافع نہیں بلکہ ذمہ داری بھی سمجھتا ہے۔
اب فیصلہ وقت کرے گا مگر فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا یہ باب پاکستان کے حق میں ایک مثبت آغاز ہے۔