پنجاب انتخابات فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست خارج
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست خارج کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ایکشن لے گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوچکی ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے تیاری کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت تیاری کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت دے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اپنا موقف بتائیں آپ کے ساتھ ہم بھی کیس کا جائزہ لیں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں نے کیس میں اضافی گراونڈز تیار کیے ہیں، سب سے اہم سوال الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار کا تھا، سیکشن 57,58 میں ترامیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب ذہن میں رکھیں یہ نظرثانی کیس ہے مرکزی کیس الگ تھا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ کا پنجاب انتخابات سے متعلق تفصیلی فیصلہ ملا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کچھ اضافی دستاویزات جمع کراناچاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو فیصلہ آیا وہ کیس ختم ہو چکا۔ چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ آپ اپنا جواب ابھی عدالت میں ہمارے ساتھ ہی پڑھیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائے وہ نکات نظرثانی میں نہ اٹھائیں، ہمیں ریکارڈ سے بتائیں کہ فیصلے میں کونسی غلطیاں ہیں جن ہر نظرثانی ہو۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس الیکشن منعقد کرنے کا محض اختیار نہیں یہ آپ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری ہمیں موثر انداز میں ادا کرنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی میں آپ دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے، یہ بتائیں کہ عدالتی فیصلے میں غلطی کہاں ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ آئین الیکشن کیشن کو اختیار نہیں ذمہ داری دیتا ہے، صدر کی تاریخ تبدیل کرنے کا معاملہ بڑا اہم قانونی نقطہ ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئینی اختیارات کو الیکشن کمیشن نے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کرنا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا دلائل دے رہے ہیں، کبھی ادھر کبھی ادھر جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تیسری مرتبہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری کی روشنی میں اختیارات کا استعمال کرنا ہے، الیکشن کمیشن کہ ذمہ داری صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کہتا ہے 90 دن میں انتخابات ہونگے، الیکشن کمیشن کہتا ہے تاریخ تبدیل کرنے کا اختیار ہے، عدالت الیکشن کمیںشن کی دلیل سے اتفاق نہیں کرتی، نظر ثانی میں دوبارہ دلائل کی اجازت نہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں، الیکشن کمشن وکیل کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تو بتائیں، عدالت کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے میں سقم کیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 3 بار آپ بتا چکے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں ذمہ داری ہے اب آگے چلیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں دیتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچھ نکات پر عدالت کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت کے سامنے کوئی نکات اٹھانے ہیں تو کسی اور کیس میں آجائیے گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ بتائیں کہ پنجاب انتخابات کیس کے تفصیلی فیصلے میں کیا غلطیاں ہیں ؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں واضح درج ہے کہ انتخابات 90 دن میں کرانے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین کے واضح مینڈیٹ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، قانون پاس کرنے سے 90 روز میں انتخابات کرانے کے آئینی مینڈیٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، الیکشن کمیشن انتخابات 90 دن سے اوپر تاخیر سے نہیں کرا سکتا۔ وکیل الیکشن کمیشنن نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے کی حد پر کچھ وجوہات میں چھوٹ بھی دی گئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی معروضات کے بارے کچھ غلطیاں ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 218 شق تین کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائز اور کنڈکٹ کرانے ہیں، الیکشن کمیشن کو انتخابات آرگنائزر اور کنڈکٹ 90 روز کی آئینی مدت میں کرانے ہیں،الیکشن کمیشن نے یہ چھوٹ خود کو کیسے دی کہ وہ انتخابات میں تاخیر کر سکے؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یقینی بنانا ہے کہ انتخابات صاف شفاف اور منصفانہ ہوں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن پانچ سال تک یقینی نہیں بناتا کہ انتخابات شفاف ہو سکیں گے تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے ؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ میری دلیل نہیں ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ آپ کی دلیل پھر کیا ہے ؟ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کا مدعا کیا ہے، کیسے اخذ کیا کہ انتخابات 90 دن میں نہ کروانے کا بہانہ پیش کرسکتے ہیں، کیا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں پانچ سال تک الیکشن کرانے کی پوزیشن میں نہیں، ہمیں ریکارڈ سے دکھائیں عدالتی فیصلے میں کیا غلطی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم آپ کو قائل کرنے نہیں بیٹھے کہ فیصلے میں غلطیاں نہیں ہوئیں، آپ ہمیں پڑھ کر بتائیں فیصلے میں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فیصلے میں غلطی یہ کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات موخر کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ دست بدست جنگ نہیں بلکہ آئینی معاملہ ہے، آئین پاکستان کے عوام سے جڑا ہوا ہے، ہم آئین سے باہر نہیں جا سکتے، آپ کو 10 بار کہ چکے کہ فیصلے میں غلطی بتائیں مگر آپ ادھر ادھر گھما رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو سن لیا، کمرہ عدالت میں بیٹھے تمام افراد کو شکریہ، ہم آپ کو سن چکے، آپ نے اپنا مدعا بیان کر دیا ہے، آپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست خارج کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی سپریم کورٹ ایکشن لے گی۔ واضح رہے الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔