کیا مصنوعی ذہانت امریکا کے اگلے صدر کا فیصلہ کر سکتی ہے؟
Image

31 مارچ 2023 ء ایک اہم دن تھا جب امریکی گرینڈ جیوری نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف الزامات طے کیے تھے۔ اس دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو وائٹ ہاؤس میں جشن مناتے ہوئے دیکھا گیا۔ لیکن اس دن امریکی صدر اور نائب صدر دونوں وائٹ ہاؤس میں موجو ہی نہیں تھے لیکن ان کی یہ جعلی تصویریں لاکھوں لوگوں کو بھیجی گئیں۔ اس ویڈیو کی تیاری کیلئے مصنوعی ذہانت یعنی ‘AI’ کا استعمال کیا گیا تھا، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ امریکی الیکشن میں ایسی تیار کردہ ویڈیوز، تصاویر اور مضامین کو پروپیگنڈہ پھیلانے کیلئے لاکھوں ووٹرز تک پہنچایا جائے گا۔

جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ-جی پی ٹی جس نے اسے بنایا تھا گذشتہ سال نومبر میں شروع کیا گیا تھا اور اب عام لوگوں کے لیے دستیاب ہے۔ چیٹ-GPT انٹرنیٹ سے تمام معلومات کھوج کر ناصرف آرٹیکل اور بلاگ ، یہاں تک کہ گانے اور نظمیں بھی لکھ سکتا ہے ایسی صورت حال میں ووٹرز کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جائے گا کہ انہیں موصول ہونے والی مہم کا مواد اصلی ہے یا جعلی۔

امریکی انتخابات میں ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی ایک کمپنی جس سے وابستہ بیٹسی ہوور نے 2007ء میں سابق صدر براک اوباما کی انتخابی مہم میں ایک منتظم کے طور پر سیاست میں قدم رکھا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ، “اوباما اس وقت پہلے امیدوار تھے جنہوں نے انتخابی مہم میں عوامی رابطہ اور بڑے پیمانے پر تنظیم کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا۔ اس وقت ہمارے پاس لوگوں اور پیسے کی کمی تھی۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اس کا حل تھا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال۔ ہم نے پہلے ریاستی سطح پر اور پھر قومی سطح پر اسے آزمانے کی حکمت عملی بنائی۔” ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ نہ صرف پیسے بچانا تھا بلکہ لوگوں تک مؤثر طریقے سے پہنچنا بھی تھا۔ لوگ گھر، دفتر یا کہیں بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ان کے فون ہمیشہ آن رہتے ہیں۔ اسی لیے ڈیجیٹل میڈیم لوگوں سے رابطہ کرنے کا ایک اچھا طریقہ تھا۔

بیٹسی ہوور کا کہنا ہے کہ ، “اس وقت بھی اس معاملے پر کافی بحث ہوئی تھی۔ ہم ٹیکسٹ، ای میل اور فیس بک کے ذریعے لوگوں کو انتخابی پیغامات بھیج رہے تھے اور ہم خود سوچ رہے تھے کہ یہ طریقہ براہ راست رابطے سے زیادہ موثر ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کے ذریعے ہم ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اوباما 2012 میں دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ لیکن گذشتہ دس سالوں میں انتخابی مہم میں ٹیکنالوجی کا کردار بہت بدل گیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے اب ووٹر کے پروفائلز اور ترجیحات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اور امیدوار اس کے مطابق اپنے پیغام رسانی اور مہم کے مواد کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جنریٹو اے آئی کا ایک موثر حصہ 2024 ء کے صدارتی انتخابات میں بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی ووٹروں کے پروفائل اور سوچ کی بنیاد پر انتخابی مہم کے لیے بڑے پیمانے پر مواد تیار کر سکتی ہے۔ اس کے ذریعے امیدوار چھوٹے گروپوں میں اپنا پیغام عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔

بیٹسی ہوور نے کہا کہ ، “امیدوار اپنی انتخابی مہم کے لیے مواد کے مصنفین اور حکمت عملی سازوں کی ایک بڑی تعداد کی خدمات حاصل کرتے ہیں، جو انتخابی مہم کے لیے لکھی گئی ای میلز یا پوسٹس کی مختلف قسمیں بناتے ہیں اور انہیں مختلف ووٹروں کو بھیجتے ہیں۔ لیکن اتنی تبدیلیاں کرنے میں وقت اور پیسہ لگتا ہے۔ مصنوعی۔ ذہانت اس کام کو بہت تیز اور سستا بنا سکتی ہے۔”

لیکن اگر ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانی اور سستے مواد کو بنایا جا سکتا ہے تو اس میں خطرہ بھی ہے۔ یعنی غلط لوگ اسے کسی امیدوار کو نقصان پہنچانے یا اس کی امیج خراب کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں کمیونیکیشن سائنس کے پروفیسر ہنی فرید کا اس حوالے سے بی بی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ نے وہ خبریں دیکھی ہیں جس میں ایک خاتون کو اس کی بیٹی کا فون آیا، اس کی بیٹی کہہ رہی تھی کہ اسے کچھ لوگوں نے اغوا کر لیا ہے، خاتون نے فوراً اپنے شوہر کو فون کیا اور بتایا کہ اس کی بیٹی تو گھر میں کھیل رہی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کسی نے اسے اس کی بیٹی کی آواز کی نقل کرتے ہوئے میسج بھیجا تھا یعنی کوئی اس سے پیسے بٹورنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ AI سافٹ ویئر اب اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہے اور وہ کسی کی آواز کی اتنی اچھی نقل کر سکتے ہیں کہ اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔

پچھلے بیس سالوں میں ہماری کمپیوٹر اور سافٹ ویئر بنانے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اے آئی سافٹ ویئر بہت ترقی کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ خود بھی اپنی بہت سی معلومات انٹرنیٹ پر دے رہے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنانا مشکل نہیں۔

آپ کسی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو انہیں آپ کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ یہ ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ اب مشین آپ کے چہرے اور آواز کو پہچانتی ہے، ان کے پاس آپ کے خاندان کے افراد کے بارے میں بھی معلومات ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس پر ڈیٹا تفتیش کاروں کے پاس ہوتا ہے۔ ذاتی معلومات کی حیرت انگیز مقدار تک رسائی جو ہمیں نشانہ بنانے اور گمراہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس موجودہ معلومات اور AI کی مدد سے لوگوں کے پروفائل بناتی ہیں اور اسی کے مطابق انہیں اشتہارات فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی جگہ جانے کے لیے ٹکٹ کی معلومات تلاش کرتے ہیں، تو فوراً آپ کو سوشل میڈیا پر اس جگہ سے متعلق اشتہارات نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن اب جنریٹو اے آئی کی مدد سے کسی کے ٹیکسٹ میسجز ، تصاویر، ویڈیوز یا آڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے جعلی مواد بنانا آسان ہو گیا ہے۔

اب ایسا سافٹ ویئر باآسانی دستیاب ہے جس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ Chat-GPT Generative AI کا ایک سافٹ ویئر ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ AI ٹیکنالوجی کے استعمال میں ڈرامائی تبدیلی لا رہا ہے۔ Chat-GPT ٹیکسٹ مواد بنا سکتا ہے، لیکن مزید سافٹ ویئر دستیاب ہے جو ویڈیو اور آڈیو مواد بنا سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ برس امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم میں اس سے تیار کردہ جعلی مواد کے استعمال کا امکان ہے۔

انتخابی مہم میں ایسے جعلی مواد کا استعمال نہ صرف ووٹرز کو گمراہ کرے گا بلکہ اس سے جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن جہاں انتخابات میں اس کے غلط استعمال کا خطرہ ہے وہاں اس کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انتخابی مہم کی تنظیم جتنی اہمیت کی حامل ہے، اتنا ہی ضروری پیسہ بھی ہے۔

سٹرلنگ ڈیٹا کمپنی کے سی ای او مارٹن کروز کوامریکہامیں امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے میں مدد کرتی ہے کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک میں امیدواروں کے انتخاب کی لاگت عوامی ذرائع سے آتی ہے لیکن امریکا میں وہ اپنے حامیوں یا کمپنیوں سے انتخابات کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر، ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اپنی مہم کے لیے پارٹی کے حامیوں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔ پارٹی کے تقریباً 17 کروڑ حامی ایسے ہیں جو چندہ دے سکتے ہیں یا عطیہ دہندگان ہیں۔ امیدوار اپنا پتہ معلوم کرنے کے لیے ہماری مدد لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم کم سے کم وقت میں ممکنہ عطیہ دہندگان کی فہرست بنائیں۔ اس کے لیے ہم AI کا استعمال کرتے ہیں۔ سافٹ ویئر تمام معاونین کو ٹریک کرتا ہے۔

پہلے کمپیوٹر انجینئرز کو معاونین کی فہرست بنانے کے لیے کئی دنوں تک کام کرنا پڑتا تھا لیکن اب یہ عمل بہت آسان ہو گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ “ہم لوگوں کا ڈیٹا اپنے سافٹ ویئر میں ڈالتے ہیں اور AI یہ کام چند منٹوں میں کرتا ہے۔ اب بہت سے پلیٹ فارمز انٹرنیٹ پر ڈیپ لرننگ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور لوگ اسے ڈیٹا پروسیسنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔” اس سے ایک طرف امیدوار کے الیکشن لڑنے کی لاگت کم ہوتی ہے تو دوسری طرف ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے جن کی فہرست اسے ملتی ہے۔

مارٹن کرز کا کہنا ہے کہ “آنے والے وقتوں میں اس لاگت میں کمی آئے گی اور زیادہ لوگ انتخابی میدان میں اتر سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت میں زیادہ برابری لانے اور انتخابی عمل کو جمہوری بنانے کی صلاحیت ہے۔” تو اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس کا امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات پر اثر پڑے گا؟

جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر ایک مشہور کتاب ” ڈیپ فیکس ” کی مصنفہ نینا شِک کا کہنا ہے کہ اگلے الیکشن تک یہ ٹیکنالوجی بہت آگے جائے گی اور اس کے استعمال کے بغیر انتخابی مہم چلانا مشکل ہو جائے گا۔

وہ کہتی ہیں، “میرے خیال میں نا صرف انتخابی مہم چلانے کا طریقہ بدلے گا، بلکہ لوگوں کے لیے پیغام بھی بدل جائے گا۔ جنریٹو اے آئی ہر ووٹر کے لیے ذاتی نوعیت کے پیغامات بنا اور بھیج سکتا ہے۔ اس سے سیاست دان عوام سے بہتر طریقے سے جڑ سکیں گے۔ اس ٹیکنالوجی کو پہلے انتخابی مہم میں کسی موضوع یا مسئلے پر رائے عامہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہت سے لوگ اس کا غلط استعمال کر سکتے ہیں، جو Chat-GPT کی آمد سے پہلے بھی ظاہر ہوا تھا۔ ان کے بقول، “ہم نے گذشتہ انتخابات کے دوران بہت زیادہ جعلی مواد دیکھا، ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کی جعلی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں، یہ ضروری نہیں کہ ایسا مواد حریف کیمپ سے آئے، بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔”

اس کے ساتھ ہی 2016 ء سے روس پر امریکی صدارتی انتخابات پر غلط طریقے سے اثر انداز ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ تو کیا مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ان انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کا امکان پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے؟

اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کے اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلی معلومات پھیلانے کی صلاحیت کو غیر ملکی قوتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ گذشتہ انتخابات کے بعد سے دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی قوتیں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اس سے جمہوری عمل کو چیلنج ہو گا لیکن یہ برقرار رہے گا۔

لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا AI امریکا کے اگلے صدر کا فیصلہ کر سکتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی جہاں جمہوری عمل کو کچھ فوائد فراہم کر رہا ہے وہیں اسے نقصان پہنچانے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ لیکن یہ وہ فصل ہے جو ہم نے بوئی ہے جسے کاٹنا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم کس قسم کا معاشرہ چاہتے ہیں۔