حضرتِ انسان کبھی ان کے لیے بھی
Image

تحریر : رضا کھرل

پنجاب کے میدانی علاقوں میں ، یکایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوجائے تو حیرت ہوتی ہے۔ جیسے ہی وسطی پنجاب میں چنیوٹ شہر سے سرگودھا کی جانب مڑتے ہیں تو چند کلومیٹر بعد ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، جس کی لمبائی زیادہ سے زیادہ پچیس کلومیٹر ہے۔

سرگودھا اور چنیوٹ کے سنگم پر واقع اس چھوٹے سے پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ دریائے چناب ایک قدرتی بیراج بنا کر دو حصوں میں گزرتا ہے ۔ ان پہاڑوں کے ارد گرد سرسبز کھیتوں میلوں تک پھیلے ہیں اور بھلے لگتے ہیں۔ مگر کوئی گہری نظر سے دیکھتا اور سنتا ہے تو ان پہاڑوں کا نوحہ محسوس کرسکتا ہے۔

یہ پہاڑی سلسلہ پہلے آج سے کہیں زیادہ تھا ۔ حتیٰ کہ میرے بچپن میں بھی پہاڑ کچھ زیادہ ہی تھے۔ یہ پہاڑ زیادہ تر سنگ ابری کے یعنی "بلیک سٹون "کے ہیں اور دور سے یوں لگتے ہیں جیسے زنگ آلود لوہے کا خزانہ ہوں۔ ان پہاڑوں کے دامن میں بدھ مت دور کے آثار بھی ہیں۔ شاید کسی دور میں یونیورسٹی یا درسگاہ ہو۔ محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے کس حد تک ان آثار کو محفوظ کیا ہے ، بظاہر تو نہیں۔

چنیوٹ شہر بھی قدیم آبادیوں میں سے ہے ۔ بہت سے لوگ اسے لکڑی کے عمدہ فرنیچر کی وجہ سے جانتے ہیں یا مشہور چنیوٹی کنے کی وجہ سے بھی ۔ یہ کنا ایک طرح کا کھانا ہے ، گوشت کا جو مٹی کے ایک برتن میں پکایا جاتاہے۔

یہ مزاروں اور مقبروں کی وجہ سے "منی ملتان" بھی کہلاتاہے اور پاکستان کے بڑے تاجر اور صنعتکار خاندانوں کا آبائی شہر بھی ۔ میاں منشا ہو یا گوہر اعجاز یا منوں سب اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہاں تو بات پہاڑوں کی ہورہی تھی اور یہ ان پتھروں کی کہانی بھی ہے جو ہمارے سامنے موم ہوچکے ہیں ۔

پہاڑ جو ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں ، ان کی دکھ بھری داستانیں بھی ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہر چیز انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسکی خاطر بنائی گئی ہےاور اسی لیے انسان ہر چیز پر ہاتھ صاف کررہا ہے ، حتیٰ کہ پہاڑ بھی انسان ہضم کرتا جارہاہے ۔ مٹی ، ہوا ، پانی تو کیا چرند پرند سب حضرت انسان کی خاطر۔ اس خوش فہمی کے ہاتھوں کوئی پہاڑ محفوظ ہے نہ پتھر ۔

رنگ برنگے پتھر جو ہزاروں لاکھوں سالوں سے کمبل اوڑے پہاڑوں کی صورت پڑے تھے ، اب دھڑا دھڑ ان کا قتل عام ہورہا ہے۔ سنگ مرمر کے نام پر یا سنگ سرخ اور سنگ کھٹو ، نہ جانے کیا کیا۔ پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں انسانوں نے جتنے پہاڑ چٹ کیے ہیں ، شاید ہی پچھلی پوری تاریخ میں ایسا کیا ہو۔ چند دہائیوں سے یہ رفتار تو اور زیادہ ہوچکی ہے ، جیسے مصمم ارادہ کرلیا ہو کہ کوئی پہاڑ بچنے نہ پائے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/26/02/2024/column/70839/

پچپن میں سرگودھا جاتے تھے تو قصبہ چنیوٹ سے گزرتے ساتھ ہی پہاڑ نظر آتے تھے ۔ سرگودھا کی کڑانہ پہاڑی تک ۔ دریائے چناب اب ایک طرف سے ان پہاڑوں سے خالی ہوچکاہے ۔ یہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر ہمارے آپکے گھروں، دکانوں اور پلازوں کی تعمیر میں خرچ ہوچکے ہیں۔

گویا ان پر قیامت ٹوٹ چکی ہے ۔ یہی حال شاہکوٹ اور سانگلہ ہل کی پہاڑیوں کا ہے ۔ ان کا پہاڑی کہنا بھی ، معیوب لگتا ہے ۔سندھ میں ہو یا کے پی کے میں یا بلوچستان اور گلگت بلتستان اور کشمیر ہر جگہ تعمیر کا شوق ان پہاڑو کو گرا کر ہی پور ا ہوتا ہے ۔ پاکستان سے باہر بھی حالات ایسے ہی ہیں سوائے چند ملکوں کے جہاں ان پہاڑوں کو ماحول کا جز و لازم سمجھا جاتا ہے ۔

سوچیں کتنے لاکھ گھروندے ہونگے ، ان پہاڑوں میں ، کتنے جانوروں کا بسیرااور ذریعہ خوراک ہونگے یہ پہاڑ۔ ان کے لیے ان کی قدر سنگ مرمر ، سنگ کھٹو، سنگ سرخ اور سنگ ابری اور بادل سے کہیں زیادہ اہمیت ہوگی ۔

ہماری عارضی خواہشوں کی خاطر ان کے مستقل ٹھکانے تباہ ہوچکے ہیں۔ جب جنگلی حیات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ہماری اپنی بقاکو بھی خطرہ لاحق ہوسکتاہے ۔ مگر ہم سوچیں گے کب اورکب اپنی روش بدلیں گے ۔ ہم سب خواہشوں کے غلام ہیں کہ دوسروں کو جینے کا حق ہی نہیں دینا چاہتے ۔ حل کیا ہے ؟

حل یہ ہے کہ انسان ماضی سے سیکھے ۔ ایسی تعمیرات کو فروغ دے جس میں پتھر کم استعمال ہوتا ہے ۔ اپنی ضرورت سے زیادہ تعمیرات سے گریز کرے ۔ سادگی میں زندگی بسر کرے۔ قدرت کے ان تحائف اگلی نسلوں کے لیے محفوظ کرے۔ اگر ایسا کرے تو ہی انسان اشرف المخلوقات ہے ، ورنہ کھائو پیو اور موج اڑائو والا معاملہ ہے۔