اسلام آباد:(سنونیوز)سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج ہو گی۔نواز شریف کی دو اپیلوں کے ساتھ ہی عدالت نے نیب کی نواز شریف کے خلاف دونوں اپیلیں بھی سماعت کیلئے مقرر کر دی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر آج سماعت کرینگے۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایون فیلڈ اپیل پر دلائل جاری رکھیں گے۔
امجد پرویز نے گزشتہ سماعت پر بھی دو گھنٹے سے زائد وقت تک دلائل دیے تھے، انکے دلائل مکمل ہونے پر نیب پراسیکیوٹر اپنے مختصر دلائل دینگے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے نواز شریف کے خلاف نیب کی دو اپیلیں بھی انہی کیسز کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر کر دی ہیں۔
نیب نے العزیزیہ ریفرنس میں نواش شریف کی سزا سات سال سے بڑھانے کی اپیل دائر کی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کو بھی چیلنج کیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے نواز شریف کی پیشی کیلئے سرکلر جاری کر رکھا ہے جس کے مطابق کمرہ عدالت میں داخلہ انٹری پاسز سے مشروط ہو گا اور مخصوص افراد ہی کمرہ عدالت میں جا سکیں گے۔
گذشتہ دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں:
https://sunonews.tv/27/11/2023/pakistan/56548/کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا ہے کہ یہ جو فیکٹ آپ نے دئیے کیا یہ ریفرنس دائری سے پہلے کے ہیں ؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تین حقائق ریفرنس سے پہلے ہیں باقی بعد کے ہیں، امجد پرویز نے 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے کا حوالہ دیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی پر پانامہ جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، 2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو وزیراعظم پاکستان کو نااہل قرار دیدیا تھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ریفرنسز دائر ہونے سے پہلے کے حقائق بہت اہم ہیں، جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں؟ اُنکا سکوپ کیا تھا ؟دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کمرہِ عدالت میں میاں نواز شریف کے قریب کھڑے لیگی رہنماؤں کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ لوگ کیوں کھڑے ہیں پیچھے جا کر بیٹھ جائیں ۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل اپنی معاونت کیلئے دی تھی، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جے آئی ٹی رپورٹ 10 والیمز پر مشتمل تھی، جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہونے کےبعد فریقین کو دلائل کیلئے بلایا گیا، دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پانامہ کا حتمی حکم نامہ 28 جولائی 2017 کو جاری ہوا، حکم نامے کے مطابق نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔
یہ بھی پڑھین:
جسٹس میاں گل حسن نے ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کیا احکامات جاری کیے تھے؟ کیا سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو کوئی احکامات جاری کیے تھے؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو مثبت احکام دیئے کہ نواز شریف کیخلاف ریفرنسز دائر کیے جائیں، سپریم کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کیخلاف العزیزیہ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کیخلاف فلیگ شپ ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق نیب نئے شواہد سامنے آنے پر ضمنی ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کا کہہ دیا تو معاملہ تفتیش کیلئے کیوں بھیجا گیا؟ امجد پرویز نے کہا کہ ہم نے نیب سے یہ پوچھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تفتیش کیوں کر رہے ہیں؟، نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ کہیں تحریری طور پر موجود ہے؟ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جی بالکل، تحریری طور پر یہ بیان موجود ہے، نیب نے 8 ستمبر کو ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات اور ریفرنسز کے دائر ہونے کے درمیان کیا ہوتا رہا؟ کیا تینوں ریفرنسز ایک ہی دن دائر کیے گئے؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تینوں ریفرنسز ایک ہی دن دائر کیے گئے تھے، 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا، نیب ریفرنسز ستمبر میں دائر ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:
https://sunonews.tv/28/11/2023/pakistan/56716/عدالت نے پوچھا کہ جب ریفرنسز دائر ہوئے تو کیا نواز شریف ملک میں موجود تھے؟ وکیل نے کہا کہ ریفرنسز کی دائری کے وقت نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ برطانیہ میں تھے، 19 اکتوبر 2017 کو ریفرنسز میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صرف ایون فیلڈ میں فرد جرم ہوئی یا تینوں میں؟ امجد پرویز نے کہا کہ ویسے تو تینوں ریفرنسز میں ایک ہی دن فرد جرم ہوئی، بعد میں ریفرنسز کو الگ الگ چلایا گیا، ہمیں استغاثہ کی طرف سے والیم 10 کی کاپی نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرائل کے دوران والیم 10 میں سے کچھ تو دستاویزات ریکارڈ پر آئی ہوں گی؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ والیم 10 میں سے کوئی دستاویزات ریکارڈ پر نہیں لائی گئیں، جرح کے دوران کچھ سوالات کے جواب ضرور دیئے گئے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریماکس دیے کہ نواز شریف ایک ریفرنس میں بری بھی ہوئے تھے، پراسیکوٹر نیب نے کہا کہ احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے؟ پراسیکیوٹر نیب نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپیل دائر ہے لیکن نوٹس نہیں ہوئے اور وہ آج سماعت کیلئے مقرر بھی نہیں ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ نیب کی ایک رپورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ تحقیقات کا ذکر تھا، نیب نے دوسری ریورٹ میں ٹی وی انٹرویوز اور جے آئی ٹی کے کچھ گواہوں کو ریورٹ کا حصہ بنایا، کیلبری فونٹ ایکسپرٹ تھا رابرٹ ریڈلے، اس کو نیب بطور گواہ لائی تھی ، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے، نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کر دیے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے کہیں اپنا مائنڈ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ کیا؟ امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، نیب نے ضمنی ریفرنس میں کچھ مزید شواہد ریکارڈ پر لائے، نیب نے میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا، نیب نے مریم، حسن اور حسین نواز شریف کے بیانات کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا،نیب نے کیلبری فونٹ سے متعلق ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کا بیان شامل کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کیا یا خود سے کوئی تفتیش بھی کی؟ امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے صرف ڈاکیے کا ہی کام کیا، اپنی طرف سے کوئی تفتیش نہیں کی بلکہ نواز شریف کو صرف جے آئی ٹی میں دیئے گئے بیان کی تصدیق کیلئے بلایا گیا تھا، نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے ریماکس دیے کہ تو نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟ امجد پرویز نے کہا کہ جی بالکل نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا،ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معذرت کیساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ ہی نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage