خواجہ سرائوں کا الیکشن میں قسمت آزمانے کا فیصلہ
Image

حنا لیاقت (سنو نیوز الیکشن سیل):2024 ء کے سیاسی دنگل میں نئے پرانے سبھی چہروں کیساتھ ساتھ تیسری جنس بھی اپنی قسمت آزمائے گی ۔ تاہم عوام اپنے ووٹ کی طاقت سےکس کو تخت پر لائےگی اس کا فیصلہ 8 فروری کو ہوگا۔

2023 ءکا سورج غروب ہونے کو ہے تودوسری جانب 2024ءکی آمد آمد ہے۔ نیا سال اپنے ساتھ بہت سی نئی امیدیں لائے گا۔ سال 2024 ء دنیاکے بیشتر ممالک کے سیاستدانوں کی قسمت کافیصلہ کرے گا۔

آئندہ سال 30 سے زائد ممالک میں انتخابات کا میدان سجے گا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے عوام بھی جمہوریت کی روایت برقرار رکھیں گے ۔2024 ء کےاعدادوشمار کے مطابق 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760رجسٹرڈ ووٹرز وطن عزیز کا سربراہ منتخب کرنےکیلئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

قومی اسمبلی کی کل 266 نشستیں ہیں جس کےلئے 7713 امیدوار مدمقابل آئیں گے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی مجموعی تعداد 263 ہے جس کیلئے 7505 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

وطن عزیز کی پیدائش سے لے کر اب تک کی 75 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سی سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات ملکی سیاست پر براجمان رہیں۔تاہم 1958ء سے 1971ء ، 1977ءسے 1988 ءاور 1999 ءسے 2008 ءتک فوجی اقتدار بھی ملک پر مسلط رہا۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/26/12/2023/pakistan/61447/

لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دنیا بھر کی طرح جمہوری سیاست بھی ملک میں پروان چڑھتی رہی اور وقت کی اہم ضرورت بن گئی۔ ملک میں بارہویں بارعام انتخابات کا میدان سجنے جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم سمیت ٹی ایل پی اوردیگر جماعتیں اور آزاد امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے۔

کچھ اپنے ماضی کے وعدوں اور دعوئوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی عوام کو سبز باغ دکھائیں گے تو کچھ تبدیلی کا نعرہ لگا ئیں گے۔ لیکن آج کے عوام باشعور ہیں اور محض وعدوں سے بہلنے والے نہیں بلکہ 75 سالہ تاریخ میں سیاستدانوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور اپنے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2018 ء کے عام انتخاب میں قائم کی گئی۔ جب حکومت پاکستان کی جانب سے8 مئی 2018 کو  Transgender Persons Protection of Right بل منظور ہوا۔ یہ ان چند قوانین میں سے تھا جس پر حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ تاہم جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس بل کی مخالفت کی۔

اس ایکٹ کا بنیادی مقصد خواجہ سرا طبقے کوتیسری جنس کے طور پر قانونی شناخت دلانا، انہیں تعلیم، صحت اورروزگار کے حوالے سے مواقع فراہم کرنا اور معاشرے میں ان کےساتھ ہونے والے نارواں سلوک کی روک تھام کرناتھا۔

اس بل کے بعد خواجہ سرا طبقے میں خاطر خواہ خوداعتمادی اور خودمختاری دیکھنے میں آئی ۔ جس کی ایک مثال سال 2018 ء کے انتخابات تھے جب ٹرانس جینڈرز نےپہلی مرتبہ سیاسی میدان میں قدم رکھے۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنےوالےنایاب علی جو کہ قومی سطح پرانسانی حقوق کے محافظ اور سماجی سیاستدان ہیں۔اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے نایاب علی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صنفی مساوات اور معاشی خودمختاری پر دس سال کام کیا ۔

یہ خواجہ سرائوں کے حقوق کی وکالت کیلئے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کیساتھ وابستہ ہیں اور 2020 ء میں انہیں فرانکو جرمن انعام سے نوازا گیا۔ نایاب علی ان چند خواجہ سرائوں میں سے تھیں جنہوں نے2018ء میں پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لیا۔

نایاب علی نے این اے 142 اوکاڑا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سےانتخاب میں حصہ لیا۔ تاہم آئندہ انتخابات میں بھی نایاب علی این اے 46 اور این اے 47 سے الیکشن لڑیں گی ۔ سنو نیوز سے بات کرتے ہوئے نایاب علی نے اپنے حلقے کی خواتین اور ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کیلئے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پچھلے دس سالوں سے خواجہ سرائوں کےکیلئے کوشاں ہوں اور اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر بھی آواز بلند کرتی آئی ہوں۔ جس کا ایک ثمر ہمیں 2018 ء ایکٹ ٹرانس جینڈر پرسنز ( پروٹیکشن آف رائٹس) کی صورت میں ملا۔ تاہم اس کا حقیقی فائدہ تب ہوگا جب اس بل پر پوری طرح عمل درآمد کرایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/26/12/2023/pakistan/61444/

انہوں نے کہا کہ سماجی کارکن کو کاغذات نامزدگی کے حصول کیلئے متعلقہ آر او کی جانب سے تعصب کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں فارم دینے سے انکار کر دیا گیا۔ تاہم احتجاج کی صورت میں الیکشن کمیشن سے تصدیق کے بعد انہیں پیپرز الاٹ کئے گئے۔ انہوں نے حکومت سے الیکشن کے دوران سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نایاب علی کا مزید کہناتھا کہ جاگیرداری کی سیاست سے اکتائے ہوئے عوام کیلئے ہم امید کی کرن ثابت ہوں گے۔

ان کے علاوہ صوبیا خان کے پی 18 سے سیاسی میدان میں اتریں گی ۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہےاوریہ پہلی خواجہ سرا ہیں جو نا صرف ریڈیو تہذیب اورخیبر پختونخواہ کی آر جے ہیں بلکہ کے پی کے پولیس کی جانب سے ڈسپیوٹ ریسولیوشن کونسل کی ممبر بھی ہیں۔ یہ پچھلے دس سال سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کیلئے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔

اب بھی ان کا سیاست میں آنے کا مقصد لاچار بچوں ، بے سہارا خواتین اور ٹرانس جینڈرز کو عزت دار روزگار فراہم کرنا اور ان کے حقوق کیلئے قومی سطح پر آواز بلند کرنا ہے۔ سنو نیوز کے پلیٹ فارم کے ذریعے انہوں نے شکوہ کیا کہ سیاستدان ہمیں کہتے ہیں آپ کا ووٹ قیمتی ہے ہمیں ووٹ دو۔ میرا ان سے سوال ہے کیا ہم قیمتی نہیں ہیں؟ ہمیں بھی اپنے طبقے کی نمائندگی کیلئے سیاست میں جگہ ملنی چاہیے۔ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کیلئے بھی انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرل رول میں خواجہ سرا وں کی شق نہیں شامل کی گئی جبکہ 2018 ء میں ان کو تیسری جنس کے طور پر قانونی حق دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ انہوں نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ قومی و صوبائی اسمبلی میں دیگر لوگوں کی طرح ہمیں بھی نمائندگی کا موقع ملنا چاہیے۔

ادھر صائمہ شوکت بھی پی کے 46 سے الیکشن کے دنگل میں اپنی قسمت آزمائیں گی۔ ان کا تعلق ہری پور ہزارہ سے ہے اور 2005 ء سے اب تک کئی لوکل انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں۔ ان کی تعلیم انڈر میٹرک ہے لیکن اپنے طبقے کی بہتری کیلئے 15 سال سے کوشاں ہیں۔ سنو نیوز کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پیغام دیا کہ میرامقصد کسی سے مقابلہ کرنا نہیں ہے بلکہ میں خواجہ سرائوں اور اپنے حلقے کے غریب طبقے کیلئے کام کرنا چاہتی ہوں۔

وہ کہتی ہیں اپنےعلاقے کی بے سہارا خواتین اور اپنے طبقے کے لوگوں کو خودمختاربنانا چاہتی ہوں، اسی لئے ہمت کر کے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔صائمہ شوکت اپنے علاقہ مکینوں کے تعاون پرخوشی کااظہار کرتی ہیں ساتھ ہی ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے کی داد دیتی ہیں۔

2024 ء کے سیاسی دنگل میں نئے پرانے سبھی چہروں کیساتھ ساتھ تیسری جنس بھی اپنی قسمت آزمائے گی ۔ تاہم عوام اپنے ووٹ کی طاقت سےکس کو تخت پر لائےگی اس کا فیصلہ 8 فروری کو ہوگا۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage