ہائیکورٹ میں نواز شریف کے دو دن
Image

تحریر: حماد حسن

نواز شریف کئی سال بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوئے تو ان کا گیٹ اپ وہی تھا جو وزارت عظمیٰ کے دوران عموما ًہوا کرتا تھا ، یعنی ہلکے فیروزی رنگ کے کپڑے اور اس کے اوپر نیلے رنگ کی واسکٹ اور تقریباً اسی رنگ سے ملتا جلتا مفلر ۔ گویا نواز شریف نے علامتی انداز میں اپنی وزارت عظمیٰ کا اشارہ خاموشی کے ساتھ دے دیا۔

عدالتی کارروائی سے پہلے وہ اسحاق ڈار کے ساتھ شدید دھکم پیل سے گزر کر ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخل ہوئے ، جہاں شہباز شریف دوسرے رہنماؤں کے ساتھ پہلے ہی سے موجود تھے۔ ان کے دائیں جانب ان کے بھائی شہباز شریف اور بائیں جانب قریبی عزیز اسحاق ڈار بیٹھ گئے ۔

خواجہ آصف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی ، پرویز رشید اور سردار ایاز صادق ذرا "فاصلے " پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یعنی آنے والے دنوں میں بھی غلبہ پارٹی کی بجائے خاندان ہی کو حاصل رہے گا۔ ایک گھنٹہ پینتیس منٹ تک نواز شریف عدالت میں موجود رہے لیکن اس دوران انہوں نے اسحاق ڈار کے کان میں دو مرتبہ کھسر پھسر کے علاوہ کسی سے بھی کوئی بات نہیں کی۔

عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کے مد مقابل کوئی نہ تھا بلکہ نیب کا پراسیکیوٹر برابر انہیں "کمک" پہنچا رہا تھا۔ اس لیے ساز گار ماحول میں نواز شریف کے وکیل کو پریشانی کوئی نہیں تھی۔ دو رکنی بنچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے چہرے پر مسلسل نمودار ہوتی مسکراہٹ نے تنائو اور اعصاب شکنی کا راستہ روکے رکھا۔

اس دوران میں نواز شریف کے چہرے کا بغور مشاہدہ کرتا رہا جو ملے جلے تاثرات اور اندرونی کیفیات کی غمازی سے خود کو بچانے میں مسلسل ناکام نظر آ رہا تھا۔ ان تاثرات اور کیفیات میں فیصلے کا ہلکا سا خوف عدالتی تاریخ کا نوحہ ماضی کے دکھ ججز کی نا انصافیاں اسٹیبلشمنٹ کی چالبازیاں اور جمہوریت کا دکھ سب کچھ تھا۔

یہ تمام تاثرات نواز شریف کے چہرے پر واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے کہ عدالت نے ضمانت میں دو دن کی توسیع کا حکم دیا۔ ہم عدالت کے کمرے سے باہر نکلے تو وہی دھکم پیل ، وہی شور و غل، وہی شیر آیا شیر آیا کے نعرے۔

کسی کو اس بات کی کہاں سمجھ اور کہاں کا شعور کہ اس ملک میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہی کیوں ہے؟ 26 اکتوبر کو عدالتی حکم کے مطابق نواز شریف کو پھر پیش ہونا تھا سو میں بھی خاردار تاروں اور سیکیورٹی کے حصار میں راستہ تلاش کرتے اور بناتے سپریم کورٹ سے پیدل ہائیکورٹ پہنچا تو وہ لوگ بھی سیاسی حاضری لگوانے کے لئے حاضر تھے جو آنے والے موسموں کی پہچان رکھنے میں حد درجہ تاک ہوتے ہیں۔

نواز شریف تین بجے کے قریب ہائیکورٹ پہنچے تو مریم اورنگزیب حسب معمول ان سے "چمٹی" ہوئی تھیں، (حیرت ہوتی ہے کہ اس خاتون کا سیاسی وژن، ذاتی مقبولیت اور جسمانی قد کاٹھ قطعاً اس قابل نہیں کہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا جائے، پھر اسے "کون " میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ مسلسل چپکائے رکھتا ہے ؟)

نواز شریف دوسری پیشی میں بھی فیروزی رنگ کے کپڑے اور نیلے رنگ کا ویسٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے لیکن مفلر کا رنگ گہرا سرخ تھا (باقی رنگوں کی معنویت اور علامت کے حوالے سے آپ خود سمجھدار ہیں)کورٹ روم میں کارروائی اور باہر دروازے پر پولیس اور صحافیوں وکلاء اور عوام کے درمیان دھکم پیل ، لڑائی ، گالم گلوچ اور شور و غل ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

نیب کے نئے پراسیکیوٹر نے اپنے ادارے کو "نئے حالات " کے مطابق ڈھالنے میں حد درجہ مہارت دکھائی ۔ نیب کو نواز شریف کی گرفتاری بھی مطلوب نہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ گویا نیب اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنے لگا جس موقف نے نہاصرف نواز شریف پر ابتلا، آزمائش، میڈیا ٹرائل اور سیاسی قدغنوں کےدروازے کھو لے تھے بلکہ ایک ایسی سیاست اور بیانیہ بھی تخلیق کیا تھا جس نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔

تھوڑی دیر بعد عدالت نے نواز شریف کی اپیلوں کے حق کو بحال کرنے کا فیصلہ سنایا تو آنے والے شب و روز کی آسودگی اور مہربان موسموں کی آمد بہت حد تک واضح ہو چکی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو نواز شریف کے چہرے پر ایک بشاشت واضح تھی، جسے وہ ایک جہاندیدہ سیاستدان کی مانند بہت حد تک چھپانے میں کامیاب بھی رہے۔

شام ڈھلنے لگی تھی اور میں اپنی گاڑی کی طرف بھاگا تو شاہراہ دستور پر ایک ہجوم متوقع وزیراعظم کی گاڑی کے ارد گرد زندہ باد اور شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگا رہا تھا۔ اور ہاں اسی شہر سے جڑے شہر کی ایک جیل میں ایک اور سابق وزیر اعظم جیل کی سلاخوں کے پیچھے شاید اس منظر نامے کا منتظر ہے جس منظر نامے سے فی الحال سابق پابند سلاسل وزیراعظم نواز شریف لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage