پنجاب اسمبلی کی مختصر تاریخ
Image

(تحریر، رضا کھرل )

8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں انیسویں صوبائی اسمبلی پنجاب کا آغاز ہو چکا ہے اور اسے تاریخی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ادارے کی ایک سو ستائیس سالہ تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہے کہ کوئی خاتون قائد ایوان منتخب ہونے جارہی ہے۔

اس سے پہلے کوئی خاتون اس ایوان میں کسی کلیدی عہد ے پر براجمان نہیں ہوئی۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر بھی کوئی خاتون نہیں تھی ۔ آئیے پنجاب اسمبلی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی پاکستان کا قدیم ترین قانون ساز ادارہ ہے ۔ 1949 ءمیں الحاق پنجاب کے نتیجے میں سکھ حکومت جاتی رہی تو پنجاب اسیٹ انڈیا کمپنی کے تحت آگیا۔ 1858 ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ براہ راست تاج برطانیہ نے لے لی تو ہندوستان کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ 1861 ء میں ہندوستانیوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا آغاز تو ہوگیا تھا مگر صحیح معنوں میں انڈیا ایکٹ 1892ء میں ہندوستان کے باشندوں کے لیے صوبوں میں حصہ داری کی گنجائش رکھی گئی تھی ۔ اسی ایکٹ کے تحت کونسل آف دی لیفٹیننٹ گورنر پنجاب وجود میں آئی ۔

کونسل آف دی لیفٹیننٹ گورنر پنجاب 1897:

پنجاب میں 1897 ءمیں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کی ایڈوائزری کونسل ، اس کی سب سے قدیم شکل کہا جاسکتا ہے۔ اس کا نام کونسل آف دی لیفٹیننٹ گورنر آف پنجاب تھا ۔ اس کونسل کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں تھے ۔ یہ شروع میں نامزد کردہ افراد پر مشتمل تھی۔ 1921 ء میں اسے قانون سازی کا اختیار مل گیا تو یہ پنجاب لیجیسلیٹوکونسل کہلائی ۔ 1937 ء میں اسے پنجاب لیجیسلیٹو اسمبلی کا نام مل گیا۔ یہ نام 1955 ء تک رہا ۔ 1956 ء کے آئین کے تحت جب ون یونٹ کا اعلان ہوا تو سندھ ، پنجاب ، سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کمشنری کو ملا کر اسےصوبائی اسمبلی مغربی پاکستان اسمبلی کا نام دیا گیا۔

1960 ء اور 61 کے دوران اسے ویسٹ پاکستان ڈیویلپمنٹ ایڈوائزری کونسل کا نام دیاگیا۔ ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران اسے 1980 سے 84 کے دوران پرونشل کونسل آف دی پنجاب کا نام دیاگیا ۔ پنجاب میں پہلا قانون جنرل کلازز ایکٹ 1898 ء میں پاس ہوا تھا ۔ پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر سر شہاب الدین تھے اور پہلے لیڈر آف دی ہاوس سر سکندر حیات تھے ۔ یہ 1937 ء سے 1942 ءتک پنجاب کے وزیر اعظم رہے۔ 1972 ءکے بعد اسے اس کام نام پنجاب اسمبلی ہی چلا آرہا ہے سوائے ضیا دور کے مذکورہ بالا سالوں کے۔

پہلی کونسل آف دی لیفٹیننٹ گورنرپنجاب، 1897 ءتا 1909ء

یہ 1861 ءاور 1892 ء کے ایکٹس کے تحت قائم ہوئی تھی۔ کونسل آف دی لیفٹیننٹ گورنر آف دی پنجاب کا پہلا دورانیہ تقریباً گیارہ سال کا ہے۔ اس دوران 23 قوانین پاس ہوئے۔ یہ دس ممبران پر مشتمل تھی جو سب کے سب نامزد تھے۔ ان میں ہندوستانی بھی تھے۔

لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی دوسری لیجیسلیٹو کونسل ، 1910 ءتا 1912ء

منٹو مارلے رفارمز کے تحت کونسل کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ اب غیر سرکاری ممبران کی تعداد 14 تک تھی ۔ اس کے علاوہ 5 منتخب ممبران بھی تھے۔ کونسل کے اختیارت اور دائرہ کار پہلے کی نسبت زیادہ تھا ۔اپنے تین سالہ دور میں اس کونسل نے 18 اجلاس کیے اور 14 قوانین پاس کیے۔ دلچسپ یہ ہے کہ 1909 کا انڈیا ایکٹ اب نافذ العمل تھا ۔ جس کے تحت صوبوں کو زیادہ مراعات دی گئی تھی۔

لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی تیسری لیجسلیٹو کونسل ، 1913 ءتا 1916ء

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1915 کے تحت پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا تیسرا دور شروع ہوا۔ اس کے تحت کونسل کے نائب صدر کا عہدہ بھی متعارف ہوا ۔ اس کے علاوہ صوبائی بجٹ بھی زیر بحث آنا شروع ہو گیا۔

لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کی چوتھی لیجسلیٹو کونسل ، 1916 ءتا 1920ء

یہ لیفٹیننٹ گورنر کی آخری کونسل تھی۔ اس نے اپنی مدت کار میں 19 اجلاس منعقد کیے۔ اس کے بعد اسے پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا درجہ ملا ۔ اس کے تحت ہی پنجاب کے لوگوں کو وزارتیں بھی دی گئیں ۔لیکن یہ وزارتیں تعلیم ، زراعت اور صحت کے محکموں تک محدود تھیں۔ اس دوران تین بجٹ بھی بحث کے لیے کونسل کے اجلاس میں پیش ہوئے۔ اس دوران 19 قوانین پاس ہوئے ۔

پہلی پنجاب لیجسلیٹو کونسل ، 8 جنوری 1921 ءتا 27 اکتوبر 1923ء

انڈیا ایکٹ آف 1915 ءکے تحت پہلے ہی لیفٹننٹ گورنر کی کونسل میں صوبوں میں خودمختار قانون سازی کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی۔ انڈیا ایکٹ 1919 ء ایک نہیں کئی قدم آگے تھا۔ صوبوں میں ڈائی آرکی کا نظام متعارف ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ہندوستان بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص اصلاحات کے مطالبے زور پکڑ چکے تھے ۔ 1919 میں مانٹینگو چیمسفورڈ اصلاحات تجاویز اس ایکٹ کی محرک تھیں۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبران کی تعداد 93 تھی جن میں ستر فی صد منتخب اور باقی نامزدگی کے ذریعے تھے۔ اب لیفٹیننٹ گورنر کی جگہ لیفٹیننٹ گورنر کے نامزد کردہ صدر اور نائب صدر نے کونسل کے اجلاس کی صدرات شروع کردی۔

دوسری پنجاب لیجسلیٹو کونسل، 1923 ءتا 1926ء

اس کونسل کے تحت پہلی مرتبہ صدر کونسل منتخب کیا گیا ۔ سر عبدالقادر شیخ پہلے ہندوستانی اور مسلمان اس کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔ جب سر عبدالقادر شیخ ، صوبے کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو سر شہاب الدین صدر منتخب ہوئے۔ اپنی مدت کار ختم ہونے سے پہلے یہ کونسل ایک سو سے زیادہ اجلاس منعقد کرچکی تھی۔

تیسری پنجاب لیجسلیٹو کونسل ، 1926 ءتا 1930ء

دلچسپ یہ یے حکیم الامت علامہ اقبال بھی اس دوران کونسل کے ممبر رہے۔ سر شہاب الدین دوبارہ کونسل کے صدر منتخب ہوئے اور ان تین سالوں میں کونسل نے 111 اجلاس منعقد کیے۔

چوتھی پنجاب لیجسلیٹو کونسل ، 1930 ءتا 1936ء

مسلسل تیسری بار سر شہاب الدین اس کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔ بعد میں جب انہیں پنجاب کا وزیر مقرر کیا گیا تو سر بہادر چھوٹو رام اس کے صدر منتخب ہوئے ۔ یہ انڈیا ایکٹ آف 1919 کے تحت آخری کونسل تھی ۔ یہاں تک کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت پنجاب لیجیسلیٹو اسمبلی کو مکمل صوبائی خودمختاری تفویض کردی گئی۔ کونسل نے اس دوران 128 اجلاس منعقد کرکے 26 قوانین پاس کیے۔ اس کونسل کے دوران ہی سردار جوگندرہ سنگھ وزیر زراعت پنجاب نے1935 میں پنجاب اسمبلی کی موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔

پنجاب میں سب سے پہلے انتخابات 1921 ء میں منعقد ہوئے اور 1919 ءکے ایکٹ کے تحت نائب صد کا عہدہ بھی متعارف ہوا ۔ 8 جنوری 1921 کو پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے پہلے اجلاس میں سر شیخ عبدالقادر کو پہلے کونسل کے پہلے صدر کے طور پر چنا گیا اور 1925 میں خان بہادر سر شہاب الدین صدر منتخب ہوئے۔1927 ءکو انڈیا ایکٹ 1919 ءکے تحت تیسری پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخابات ہوئے۔ اسکے تحت 67 ممبران پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں سے منتخب ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر محمد اقبال بھی شامل تھے۔ اس دوران کچھ ایسے بل بھی پاس ہوئے جن کے رد عمل میں صوبے بھر میں احتجاج شروع ہوگئے۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے چوتھے انتخابات منعقدہ 1930 ءمیں سر شہاب الدین تیسری مرتبہ کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے 37 ، نیشنلسٹ پروگریسو پارٹی نے 20، آزاد اراکین کی تعداد 14 جب کہ دیگر چھوٹے گروپوں یا پارٹیوں نے 27 سیٹیں جیتیں۔ اس کی مدت تین سال تھی مگر اسے وقتاً فوقتاً بڑھایا جاتا رہا۔

پہلی پنجاب لیجلیٹو اسمبلی ، 1937 ءتا 1945ء

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ءکے تحت پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی جگہ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی نے لے لی۔ اسکے تحت صوبائی خودمختاری کی طرف کافی زیادہ قدم اٹھا لیے گیے تھے۔ اب صدر کی جگہ سپیکر نے لے لی۔ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبران کی تعداد 175 تھی۔ 42 سیٹیں ہندووں کے لیے 84 مسلمانوں کے لیے 31 سیٹیں سکھوں کے لیے ، ایک سیٹ اینگلو انڈین کے لیے ، ایک سیٹ تجارت اور کان کنی کے لیے، 5 سیٹیں زمینداروں کے لیے ، ایک سیٹ یونی ورسٹی کی، تین سیٹیں مزدوروں کی، ایک سیٹ عورتوں کی ، ایک سیٹ سکھ عورتوں کی اور دو سیٹیں مسلمان عورتوں کے لیے ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت انتخابات 1936 کو ہوئے ۔96 فی صد سیٹیں یونینیسٹ پارٹی نے جیتیں ، 20 فی صد خالصہ نیشنلسٹ جب کہ باقی مسلم لیگ، کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں نے۔ گورنر نے یونی نیسٹ پارٹی کے سر سکندر حیات کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔

اس اسمبلی کا پہلا اجلاس 5 اپریل 1937 کو ہوا اور 6 اپریل 1937 کو سپیکر کا انتخاب ہوا۔ گوکہ یہ اسمبلی پانچ سال کی مدت کے لیے تھی مگر جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے اس نے تقریباً آٹھ سال یعنی 19 مارچ 1945 تک کام کیا۔

اس دوران سر شہاب الدین پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے سپیکر رہے ۔ 1937 میں پہلی مرتبہ سر سکندر حیات وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ وہ تقریباً پانچ سال اس عہدے پر رہے ۔ 1942 کو خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم پنجاب منتخب ہوئے۔ ان کا دور اقتدار جو کم و بیش ایک سال پر مبنی تھا اس میں بھی ایک مرتبہ گورنر راج نافذ ہوا ، 1946 میں دوبارہ گورنر راج نافذ ہوا جو تقسیم ہند تک جاری رہا۔

دوسری پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی 1945ءتا 1947ء

دوسری پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا انتخاب 1945 میں ہوا۔ اس مرتبہ مسلم لیگ کامیاب ہوئی اور مسلمانوں کی 84 میں سے 73 سیٹیں اس نے جیت کر پاکستان کے قیام کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ تین جون 1947 کے تقسیم ہند کے منصوبے کے اعلان کے بعد پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا اجلاس دو حصوں میں ہوا ۔ ایک کی صدارت ایس پی سنگھا دیوان بہادر نے کی جب کہ دوسرے کی سردار بوٹا سنگھ نے کی۔ ان کے نام مغربی پنجاب کی قانون ساز اسمبلی اور مشرقی پنجاب کی قانون ساز اسمبلی رکھا گیا۔ 1897 سے لے کر 1947 کے دوران پنجاب میں کئی قوانین پاس ہوئے جن سے اس ادارے کی اہمیت کا اندازہ لگیا جاسکتا ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد پنجاب اسمبلی کا ارتقا، تیسری پنجاب لیجیسلیٹو اسمبلی ( ویسٹ پنجاب)، 15 اگست 1947 تا 25 فروری 1949

قیام پاکستان کے بعد پہلی پنجاب اسمبلی 15 اگست 1947 سے لے کر 25 فروری 1949 تک رہی ۔ اس اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 103 تھی۔ پہلے اجلاس کی صدارت محمد جمال خان لغاری نے کی۔ 5 جنوری 1948 کو شیخ فیض محمد بلامقابلہ سپیکر منتخب ہوئے۔ فضل الٰہی ڈپٹی سپکیر بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ اس دوران نواب افتخار حسین خان آف ممدوٹ وزیراعلیٰ رہے۔ 1949 سے لے کر 1951 تک پنجاب میں لیجسلیٹو اسمبلی سرے سے ہی موجود نہ تھی۔

چوتھی پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی ( ویسٹ پنجاب)، 7 مئی 1951 تا 14 اکتوبر 1955

دوسری اسمبلی کا انتخاب 7 مئی 1951 کو ہوا اور 14 اکتوبر 1955 تک قائم رہی ۔ اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد 174 تھی۔ اس اسمبلی کے سپیکر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین تھے جبکہ ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر چوہدری چندو لال سندر داس تھے۔ اس دوران تین وزرائے اعلیٰ رہے۔ ان میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ 5 اپریل 1951 سے 3 اپریل1953 تک رہے ۔ ملک فیروز خان نون 3 اپریل 1953 سے 21 مئی 1955 تک رہے۔ سردار عبدالحمید خان دستی 21 مئی 1955 سے 14 اکتوبر1955 تک وزیر اعلیٰ رہے ۔

پروینشل اسمبلی اۡف ویسٹ پاکستان، پانچویں اسمبلی ( مغربی پاکستان)، 19 مئی 1956 سے 25 مارچ 1969، ون یونٹ

1956 کے آئین کے تحت ویسٹ پاکستان کے سارے صوبوں کو ایک یونٹ میں بدل دیا گیا ۔ اسی طرح مشرقی پاکستان بھی ایک یونٹ تھا۔

20 مئی 1956 کو چوہدری فضل الٰہی سپیکر ویسٹ پاکستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ سید مہر علی بخاری کو ڈپٹی سپیکر منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان کا حلف 14 اکتوبر 1956 کو اٹھایا اور وہ اس عہدے پر 16 اکتوبر 1957 تک براجماں رہے۔ سردار عبد الرشید خان دوسرے وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان 16 اکتوبر 1957 سے 18 مارچ 1958 تک فائز رہے۔ اس دوران تیسرے وزیر اعلیٰ نواب مظفر علی قزلباش تھے جو 18 مارچ 1958 سے 7 اکتوبر1958 کے لیے رہے۔

چھٹی اسمبلی ( مغربی پاکستان )، 9 جون 1962 سے 31 جنوری 1965

اس کا انتخاب ایوب خان کے صدارتی نظام کے تحت ہوا تھا۔

مبین الحق صدیقی اور چوہدری محمد انور بھنڈر سپیکر منتخب رہے۔ سینیر ڈپٹی سپکیر محمد اسحاق خان کنڈی رہے جب کہ ڈپٹی سپکیر کے عہدے پر سید ظفر علی شاہ متمکن رہے۔ لیڈر آف دی ہاوس شیخ مسعود صادق منتخب ہوئے جب کہ لیڈر آف دی آپوزیشن خواجہ محمد صفدر تھے ( والد مسلم لگ نواز کے راہنما خواجہ محمد آصف)۔ ممبران کی تعداد 155 تھی جن کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوئی۔ مدت کار 5 سال تھی مگر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس اسمبلی کی مدت تین سال کردی گئی۔

ساتویں اسمبلی ( مغربی پاکستان)، 9 جون 1965 تا 20 فروری 1969

اس کے تحت چوہدری محمد انور سپیکر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد عمر جان خان، احمد میاں سومرو اور سید یوسف علی شاہ منتخب ہوئے۔ خواجہ محمد صفد بدستور لیڈر آف دی اپوزیشن رہے جبکہ خان حبیب اللہ خان اور ملک خدا بخش بچہ لیڈرآف دی ہاوس رہے۔ اس کے ممبران کی تعداد 160 تھی

20 فروری 1969 کو مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی یہ اسمبلی برخاست ہوگئی۔

آٹھویں اسمبلی ( پنجاب )

اس کا انتخاب تو لیگل فریم ورک آرڈر کےتحت 17 دسمبر 1970 کو ہوا لیکن اس اسمبلی نے کام کا آغٓاز 2 مئی 1972 کو ہوا اور اس کی مدت کار 26 مئی 1976 تک رہی۔

ان انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں بدامنی کا آغاز ہوا جو اسکی پاکستان سے علٰیحدگی پر منتج ہوا۔ 1973 کا آئین بھی اسی اسمبلی کے دوران پاس ہوا۔ اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد 186 تھی۔ شیخ محمد رفیق اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے جب کہ ڈپٹی سپیکر شمیم احمد خان نے جیتا۔ اس اسمبلی کی مدت کے دوران چار وزرائے اعلیٰ بنے ۔ پہلے ملک معراج خالد، پھر ملک غلام مصطفیٰ کھر، پھر محمد حنیف رامے اور آخر میں نواب صادق حسین قریشی وزیراعلیٰ بنے۔

لیڈرآف دی اپوزیشن پہلے رحمت اللہ ارشد اور بعد میں طالب حسین الوری بنے۔

نویں اسمبلی ( پنجاب )

10 مارچ 1977 تا 27 جون 1977

اس مرتبہ یہ اسمبلی 257 اراکین پر مشتمل تھی۔ چوہدری محمد انور بھنڈر سپکیر منتخب ہوئے جب کہ شمیم احمد خان ڈپٹی سپیکر۔ نواب صادق حسین قریشی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ لیڈر آف دی اپوزیشن سردار زادہ ظفر عباس تھے ۔ یہ اسمبلی تین ماہ ہی چل سکی ۔ ایک اور مارشل لگ چکا تھا۔

دسویں اسمبلی ( پنجاب )

28 فروری 1985 تا 30 مئی 1988

1977 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد تقریباً آٹھ سال اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوسکے تھے یہاں تک کہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوے۔ پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تعداد 260 تھی۔ میاں منظور احمد وٹو سپکیر اور مناظر علی رانجھا ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ میاں محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ 30 مئی 1988 کو گورنر پنجاب نے اسمبلی برخاست کردی۔

گیارہویں اسمبلی ( پنجاب)

19 نومبر 1988 تا 6 اگست 1990

اس اسمبلی کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر تھے۔ ممبران کی کل تعداد 260 ۔ منظور احمد خان وٹو سپیکر اور حسن اختر موکل ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے ۔ یہ اسمبلی بھی تقریباً دو سال ہی چل سکی۔ گورنر نے اسے 6 اگست 1990 کو برخاست کردیا۔

بارہوین اسمبلی ( پنجاب)

27 اکتوبر 1990 تا 29 مئی 1993 اور 28 جون 1993

یہ اسمبلی بھی 260 اراکین پر مشتمل تھی۔ میاں منظور احمد وٹو پہلے سپیکر منتخب ہوئے اور بعد میں سعید احمد خان منیس ۔ اسی طرح ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر پہلے مناظر علی رانجھا منتخب ہوئے اور بعد عثمان عباسی ۔

اس اسمبلی نے غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا اور بعد میں میاں منظور وٹو کو ۔ یہ اسمبلی پہلے مئی 1993 میں برخاست ہوئی اور بعد میں 28 جون 1993 کو ۔ غلام حیدر وائیں کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ سے ہٹنا پڑا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایاگیا۔ وزیر اعلیٰ کے مشورے پر گورنر نے اسمبلی 29 مئی کو برخاست کی تو لاہور ہائی کورٹ نے بحال کردی مگر جیسے ہی لاہور ہائی کورٹ نے بحال کی دوسرے وزیر اعلیٰ نے گورنر کو برخاست کرنے کا مشورہ دے دیا۔

تیرہویں اسمبلی ( پنجاب)

9 اکتوبر 1993 تا 17 نومبر 1996

یہ اسمبلی بھی پہلی تین یا چار اسمبلیوں کی طرح اپنی آئینی مدت سے پہلے برخاست ہوئی۔ممبران کی تعداد248 تھی کیونکہ خواتین کی مخصوص نشستیں اس بار اسمبلی میں نہیں تھیں۔ محمد حنیف رامے سپیکر اور منظور احمد موہل ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ پہلے میاں منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بنے بعد میں سردار عارف نکئی۔ اس اسمبلی میں میاں شہباز شریف لیڈر آف دی آپوزیشن تھے۔

چودہویں اسمبلی ( پنجاب)

3 فروری 1997 تا 12 اکتوبر 1999

اس اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی سپیکر اور سردار حسن اختر موکل ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ اور سعید احمد خان منیس لیڈر آف دی آپوزیشن تھے۔ 12 اکتوبر 1999 کو چیف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کو معطل کردیا ۔ بعد میں ترمیمی ایمرجنسی آرڈر 2001 کے ذریعے سارے پاکستان کی اسمبلیوں کو برخاست کردیا ۔

پندرہویں اسمبلی ( پنجاب)

10 اکتوبر 2002 تا 18 نومبر 2007

یہ شاید پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی۔ اس مرتبہ ممبران کی تعداد 371 تھی۔ ان میں عام سیٹیں 297 جب کہ باقی مخصوص تھیں۔ چوہدری محمد افضل ساہی سپکیر اسمبلی منتخب ہوئے جب کہ شوکت مزاری ڈپٹی سپکیر ۔ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ قاسم ضیا قائد حزب اختلاف تھے۔

سولویں اسمبلی ( پنجاب)

11 اپریل 2008 تا 20 مارچ 2013

اس اسمبلی میں رانا محمد اقبال سپکیر اور رانا مشہود احمد خان ڈپٹی سپکیر ۔ قائد ایوان پہلے سردار دوست محمد کھوسہ بنے اور بعد میں میاں شہباز شریف ۔ قائد حذب اختلاف اس اسمبلی میں پہلے چوہدری ظہیر الدین بنے اور بعد میں راجہ ریاض تھے۔

25 فروری 2009 کو سپریم کورٹ نے میاں شہباز شریف کی ناہلی کا فیصلہ دیا تو گورنر سلمان تاثیر نے پنجاب میں گورنر کا راج لگا دیا لیکن سپریم کورٹ نے 31مارچ کو سپریم کورٹ نے شہباز شریف کے خلاف پہلا فیصلہ ختم کرتے ہوئے اسے بحال کردیا ۔ ڈرامہ یہ تھا کہ گورنر نے 30 مارچ 2009 کو گورنر راج یہ حکم دے کر ختم کردیا کہ اسمبلی یکم اپریل 2009 کو نیا لیڈر آف دی ہاوس منتخب کرے۔

سترہویں اسمبلی ( پنجاب )

یکم جون 2013 تا 31 مئی 2018

یہ لگاتار تیسری اسمبلی تھی جو اپنی مدت پوری کرگئی۔ اسمبلی کے سپیکر رانامحمد اقبال منتخب ہوئے جب کہ ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی۔ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ اور میاں محمود الرشید قائد حذب اختلاف۔

11 مئی 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اس اسمبلی میں مسلم لیگ نواز 371 میں سے 310 سیٹیں تھیں۔

اٹھارہویں اسمبلی ( پنجاب)

25 جولائی 2018 تا 14 جنوری 2023

یہ اسمبلی بھی کافی ہنگامہ خیز رہی ۔ مسلم لیگ نواز کی عددی اکثریت کے برعکس پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم نے مل کرحکومت بنائی ۔ عثمان بزادر وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے جب کہ چوہدری پرویر الٰہی سپیکر اور دوست محمد مزار ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ حمزہ شہباز قائد حذب اختلاف تھے۔ ابتدائی ساڑھے تین سالوں میں تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکلات نہیں تھیں تاہم اپریل 2022 کے بعد سے نہ صرف مرکز بلکہ صوبوں میں بھی تحریک انصاف کے حالات کافی مشکل ہوچکے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد حزب اختلاف کے لیے ایک موقع تھا جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ، مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی ۔ مگر یہ موو زیادہ دیر تک نہ رہ سکا کیوں کہ پی ٹی آئی کے بیس باغی اراکین کی نااہلی کے بعد ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے اکثر سیٹیں جیت لیں۔ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے اور انہوں نے اسمبلی کی تحلیل کے لیے گورنر کو مشور ے کی ثمری ارسال کردی ۔ گورنر نے تو دستخط نہیں کیے مگر اسمبلی خود بخود تحلیل ہوگئی ۔

انیسویں اسمبلی ( پنجاب)

8 فروری 2024

ہو نے والے انتخابات میں تاحال بہت سے نوٹی فیکیشن ہونے ہیں ۔ لیکن فارم 47 کے تحت 296 جنرل سیٹوں میں سے 137 پر پاکستان مسلم لیگ نواز براجمان ہے جب کہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین ہیں جن کی تعداد 117 ہے ۔ تیسرے نمبر پر 10 سیٹوں کے ساتھ پاکستان پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ق کی آٹھ سیٹیں ہیں۔ آزاد اراکین 21 ہیں جبکہ آئی پی پی کی،پی ایم ایل زیڈ اور ٹی ایل پی کی ایک ایک سیٹ ہے۔ مسلم لیگ نواز کی طرف سے مریم نواز کو وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا جاچکاہے ۔یہ پہلی خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب ہوگی ۔