
تحریر: یاسر حسین
ویسے تو ارشد شریف کو کئی عرصے سے ٹی وی پر دیکھتا آیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ماتحت کام کرنے کا موقع بھی دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 2014 ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، اس دوران مجھے میرے ادارے نے حکم جاری کیا کہ آپ نے پشاور سے اسلام آباد قافلے کے ساتھ جانا ہے۔
صبح سویرے ڈی ایس این جی سٹاف اور دو کیمرہ مینوں کے ہمراہ موٹروے ایم ون سے قافلے کے ہمراہ کوریج کرتے ہوئے سفر کیا۔ جب شام کے اوقات میں اٹک کراس کیا تو مجھے ایک کال موصول ہوئی، جیسے ہی فون اٹھایا تو سلام کے ساتھ ہی آواز آئی ارشد شریف بات کر رہا ہوں ۔ جواب میں سر سر کہہ کر میں نے کہا ہم اٹک کراس کرکے پنجاب کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔
اس دوران ارشد شریف نے کہا میرے علم میں ہے آپ کے ٹیلیفونک بیپرز دیکھ رہا ہوں، اسی لیے کال کی کہ اب آپ اسلام آباد بیورو کے انڈر ہیں۔ لہذا مجھے پل پل کی رپورٹ دیتے رہیں ۔ میں نے اوکے کرکے فون بند کیا ، اور سوچا کہ ارشد شریف تو انتہائی سخت مزاج کے مالک ہیں۔
خیر تحریک انصاف کا قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا رہا ، میں میسج کے ذریعے ارشد شریف کو رپورٹ دیتا رہا۔ اس رات گیارہ بجے کے قریب چونگی نمبر 26 پر انتظامیہ نے کنٹینر کھڑے کر رکھے تھے، جسے تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایک طرف کر کے اپنے سفر جاری رکھا۔
قافلے کی قیادت اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کر رہے تھے ۔ ہزاروں کارکن گاڑیوں اور بسوں میں ہمراہ تھے۔ اسی دوران جب ہم کشمیر ہائی وے پہنچے تو میں مسلسل ٹیلیفونک بیپر کے ذریعے ناظرین کو آگاہ کر رہا تھا ۔
اسی دوران کال ویٹنگ پر پھر سے ارشد شریف کی کال آ تی رہی، لیکن بیپرز پر مصروف ہونے کی وجہ سے بات نہ ہو سکی۔ اسی دوران اسلام آباد بیورو کے لائیو سورس بھی جگہ جگہ موجود تھے۔ رات کے دو بج گئے اور صبح سات بجے سے میں اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈیوٹی پر تھا۔ اور بول بول کر تھک بھی چکا تھا۔
اسی دوران مجھے اس وقت کے ٹی وی چینل کے ایڈمن کی کل آئی کہ اب آپ ٹیم کے ہمراہ گیسٹ ہاؤس چلے جائیں، گاڑی بھیجی جا رہی ہے۔ تھکاوٹ بھی شدید تھی اور میرے ذہن میں یہ ہی تھا کہ مجھے واپس اپنے ہوم گراؤنڈ پشاور جانا ہے ۔
خیر ہم آفس گاڑی میں گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ شدید تھکاوٹ کے باعث میں بھی کمرے میں جا کر فوراً سو گیا۔ خیر اگلی صبح بارہ بجے کے قریب جب اٹھا تو فوراً اپنے اسٹاف سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ آٹھ بجے سے پھر ڈیوٹی پر ہیں لیکن مجھے بیورو کی طرف سے کوئی کال موصول نہ ہوئی۔
اس دوران میں نے پشاور کے بیورو چیف صفی اللہ گل کو کال کی کہ پشاور آنا چاہتا ہوں ، میرے پاس کپڑے وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے جواباً کہا کہ آپ ارشد شریف صاحب سے بات کریں ۔ میں نے ارشد شریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ شام کو ملاقات کریں گے۔ اسی دوران شدید تھکاوٹ کے باعث میں پھر سے سو گیا ۔ سہ پہر چار بجے آنکھ کھلی تو سوچ رہا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے کہ اسی دوران مجھے گھر سے کال آ گئی کہ آپ کے لیے کپڑے اور ضروری اشیاء بھیج دی گئی ہیں۔ جواب میں اپنی اہلیہ کو کہا کس نے کہا کہ آپ میرے لیے کپڑوں کا بیگ بھیجیں تو جواب ملا کہ صفی اللہ کی طرف سے کہا گیا تھا۔
شام تک اسی سوچ میں رہا کہ آگے کیا کرنا ہے تو مجھے اسلام آباد بیورو سے کال آئی کہ پشاور سے آپ کا بیگ موصول ہوا ہے، وہ آپ کو بھیج رہے ہیں اور آپ کی ارشد شریف سے 9بجے ملاقات ہے ، لہذا آپ کی طرف گاڑی بھیجی جائے گی، آپ آ جایئے گا۔
خیر سات بجے کے قریب مجھے بیگ گیسٹ ہاؤس موصول ہوا اور میں تیار ہونے کے بعد اسلام آباد بیورو چلا گیا ۔ جوں ہی اسلام آباد بیورو پہنچا تو نیچے ڈپٹی بیورو چیف ضمیر حیدر میرے لیے انتظار میں تھے ۔ ان سے ملا تو وہ مجھے ارشد شریف کے کمرے لے گئے اور تعارف کے بعد ضمیر حیدر واپس کمرے سے چلے گئے ۔ ارشد شریف صاحب سے گلے ملنے کے بعد بیٹھنے کا کہا تو آج بھی ان کی مسکراہٹ اور اپنائیت کبھی بھول نہیں سکتا ۔
ابتداء ہی میں انہوں نےسگریٹ کی ڈبی میرے آگے رکھی اور کہا یاسر حسین سگریٹ لگاؤ ، جوابا " میں نے کہا سر میرے پاس اپنے برانڈ کی سگریٹ موجود ہے، وہ سلگائی تو پھر صحافتی گفتگو شروع ہوئی ۔ اسی دوران ارشد شریف نے اتنی حد سے اپنائیت سے بھرپور گفتگو کہ مجھ میں جوش و ولولہ پیدا ہوا کہ اب ارشد شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں لوہا منوانا ہے۔ ان کی مسکراہٹ پیار اور ہمت دینے کے انداز کو کبھی بھول نہیں سکتا ۔
لیکن اس وقت شاید میں یہ سمجھ نہ سکا کہ ارشد بھائی مجھ سے منٹوں میں اتنا پیار کرنا اور اپنائیت جتانا چاہتے تھے کہ ہم دوست بن کر کام کر سکیں۔ یہ ہی ایک پروفیشنل صحافی کا کام ہوتا ہے ۔ خیر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خوب مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا ۔ انہوں نے میرے اندر کے یاسر کو خوب محسوس کرنے کے بعد مجھے کہا کل صبح سے آپ نے تحریک انصاف دھرنے میں خیبرپختونخوا حکومت معاملات سنبھالنے ہیں اور جو کوئی مسئلہ ہو مجھے براہ راست آگاہ کرتے رہنا ہے، آپ میرے مہمان ہیں ۔
بائیس دن تک جب مارننگ ڈیوٹی پر رہا ، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے ایک روز بھی میرا مجھ سے نہ پوچھا ہو ، ہر شام کو کال کرتے اور خوب پیار کرتے شاباشی دیتے ۔ بائیس دن گزر جانے کے بعد جب میری مزید فطرتی قربت ہوئی تو کہا یاسر اب آپ نائٹ ڈیوٹی کرو، میں نے بھی جواب میں کہا ارشد صاحب میرے دل کی بات آپ منہ پر لے آئے ہیں اور پھر میں نائٹ ڈیوٹی کرتا رہا ۔
ہر گھنٹے بعد ارشد شریف صاحب کی کال اور صحافتی معلومات باتوں باتوں میں نکالنے کا ہنر یہ کوئی ارشد شریف سے سیکھے ۔ کئی بار میرے لیے پیزا بھیج دینا ۔ اور ایسے تاثر دینا ارشد شریف کی طرف سے جیسے بچپن کی دوست ہوں ، ڈیڑھ ماہ گزرا تو میسج کیا ارشد شریف صاحب مجھے اب پشاور جانا ہے ، مجھے گھر جانے کی اجازت دیں ، انہوں نے فوراً میسج کے ذریعے جواب دیا کہ یاسر گاڑی آپ کو لینے آ رہی ہے، آپ تیار ہو جائیں، اپنے بیوی بچوں سے ملنے پشاور چلے جائیں ۔ مجھے ایسے جواب پر حیرانگی بھی ہوئی ۔ خیر کراچی کمپنی گیا، جہاں فلائنگ کوچ پر ٹکٹ لیا اور پشاور روانہ ہو گیا ۔
اگلے روز چھٹی کی، پشاور بیورو سے تو دوسرے دن جب آفس پہنچا تو اسٹاف سے گپوں پر مصروف تھا کہ سہ پہر کو لاہور سے کال آ گئی کہ واپس اسلام آباد بیورو جوائن کریں ۔ اسی دوران میں نے ارشد شریف سے رابطہ کیا جیسے ہی انہوں نے فون ریسیو کیا تو سلام دعا کرنے کے بعد کہا کہ یاسر اسلام آباد واپس آؤ اور نائٹ ڈیوٹی کرو ۔ ان کے اعتماد سے بھرے حکم کو میں نے لبیک کرتے ہوئے شام کو اسلام آباد پہنچا اور نائٹ ڈیوٹی کی اور پھر ہر شام ان کے پروگرام کے بعد پیزا پارٹی کرتے ہوئے نائٹ ڈیوٹی ڈھائی مہینے کرتا رہا۔
آخر کار نومبر کے مہینے میں ارشد شریف صاحب کے پروگرام کے بعد آفس گیا اور کہا سر اب میں نے پشاور واپس جانا ہے، گھر کے بغیر رہ نہیں سکتا، یقین کریں اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے گلے لگا کر کہا کہ جاؤ یاسر ڈھائی مہینے بہت کام کیا تم نے ۔ لیکن شہید ارشد شریف کے پیار ، گلے ملنے کے انداز اور گالوں پر چومنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ارشد بھائی بہت پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔
پشاور جانے کے بعد اکثر ٹیلیفونک رابطہ رہا ، جب انہوں نے نیا چینل جوائن کیا تو 2016 ء میں مجھے کال کی اور کہا کہ یاسر اب اسلام آباد میرے ساتھ نیا چینل جوائن کر لو، لیکن مجھے ان کی آفر کی سمجھ اس لیے نہ آئی کیونکہ میں پشاور پریس کلب کا سیکرٹری منتخب ہوا تھا ۔ میں نے کہا سر میں سوچ کر جواب دوں گا ، اس کے بعد انہوں نے کبھی کبھی خیبرپختونخوا کی سیاست کے حوالے سے ٹیلیفونک گفتگو جاری رکھی لیکن پھر کبھی آنے کا نہ کہا ۔
یہ سب لکھنے کا مقصد واضع کرنا ہے کہ شہید ارشد شریف چلتی پھرتی صحافتی نرسری تھے۔ وہ چھوٹے بڑوں سے پیار کرنے کا بخوبی ہنر جانتے تھے ۔ عزت کرنے کروانے کے پیکر تھے ۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے سکھائے ہوئے طریقہ کار کو آج بھی میں اپنی صحافتی سرگرمیوں میں استعمال کرتا ہوں۔
اسی لیے کہتے ہیں شہید کبھی مرتا نہیں ، صرف آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس لیے شہید ارشد شریف آج بھی ہمارے درمیان ہیں بس ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے ۔ شہید ارشد شریف میرے اور ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ وہ تھے تو صحافی لیکن ان کا دل، پیار محبت اور احترام سے کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ میں کبھی وہ ڈھائی مہینے نہیں بھول سکتا جو شہید ارشد شریف کے ماتحت گزارے۔
میں آج حبیب اکرم کو ارشد شریف سے تشبیہ اس لیے دیتا ہوں کہ مجھے 2022 ءمیں جب حبیب صاحب نے اسلام آباد آ کر رپورٹنگ کی آفر کی تو مجھے ارشد شریف صاحب یاد آ ئے، وہ سارا منظر میرے سامنے آ گیا، اس وقت یعنی 2016 ء میں پشاور پریس کلب کا سیکرٹری تھا جب ارشد شریف نے اسلام آباد شفٹ ہونے کی آفر کی تھی، اس لیے جب حبیب اکرم نے مجھے 2022 ء میں اسلام آباد میں رپورٹنگ کی آفر کی تو میں پشاور پریس کلب کا فنانس سیکرٹری تھا، لیکن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آج اسلام آباد میں سنو نیوز میں صحافتی فرائض سر انجام دے رہا ہوں ، کیونکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے دستک اللہ پاک کسی نہ کسی ذریعے بھیج دیتا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم صحافی اپنے سینئرز کی عزت اور قدر کریں کیونکہ ان کے پاس تجربہ ہے آج ہم قدر کریں گے تو ہماری بھی قدر ہو گی۔ اللہ پاک حبیب اکرم صاحب کو صحت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے اور شہید ارشد شریف کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage