پاکستان کی سوغاتیں
Image

گھوٹکی (سندھ) کے پیڑے

خالص دودھ اور دیسی گھی سے تیار ہونے والے گھوٹکی (سندھ) کے پیڑے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی لوگ اپنے پیاروں کو تحائف کے طور پر بھیجتے ہیں۔

گھوٹکی کے پیڑے جو گھوٹکی کی پہچان رکھتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیڑوں کا کاروبار زوال پذیر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے، کیوں کہ پیڑوں میں سب سے زیادہ استعمال چینی اور خالص دودھ کا ہوتا ہے۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ چینی اور دودھ قیمتوں پر قابو پائیں تا کہ گھوٹکی کی پہچان بنے گھوٹکی کے پیڑوں کا کام زوال پذير ہونے سے بچ سکے۔ گاریگروں کا کہنا ہے کہ گھوٹکی کے پیڑے جو مختلف مراحل طے پا کر تیار ہوتے ہیں، وہ اپنی لوازمات سے نہ صرف گھوٹکی بلکہ بیرون ملک تک بھی شہرت پاتے ہیں۔ گاہکوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی خوشی کا تہوار ہو اور گھوٹکی کے پیڑے نہ ہوں تو خوشیوں کا مزا ہی ادھورا رہ جاتا ہے، دکاندار مالک نے کہا کہ لوگ اپنے پیاروں کو گھوٹکی کے پیڑے مختلف تقریبات میں تحفے کے طور پر بھیجنے کیلئے آرڈر پر تیار کرواتے ہیں۔ چکوال کی ریوڑی چکوال کی ریوڑی اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ریوڑی کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے، مشینری آنے سے قبل یہ محنت طلب کام ہاتھوں کی مدد سے ہوتا تھا۔ سب سے پہلے گڑ کو خالص دیسی گئی کی مقررہ مقدار میں پکایا جاتا ہے گاڑھی مگر حلوے کی شکل کی اس تیار کردہ چیز کو مخصوص انداز میں خوب مکس کیا جاتا ہے، اس عمل کے دوران گڑ اپنا رنگ خود بخود بدل لیتا ہے اور سفیدی مائل ہو جاتا ہے۔ اب اس تیار مال کو " گٹا" کہا جاتا ہے، گٹا اس قدر خستہ ہوتا ہے کہ دانے کی شکل دینے والی مشین میں جاتے ہی اس کی ہزاروں ریوڑیاں فوری بن جاتی ہیں، اب اس کو ہلکے گرم کیے گئے سفید تل کے ساتھ ایک اور مشین میں ڈالا جاتا ہے جو اسے مسلسل گول دائرے میں گھما گھما کر اس پر تل چڑھا دیتی ہے۔ پہلوان کی ریوڑی کو کھانے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسے کھانا شروع تو اپنی مرضی سے کیا جا سکتا ہے مگر اسے ختم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہ سوغات منہ میں جاتے ہی اپنا رنگ اور سحر دکھانا شروع کر دیتی ہے اور جب تک قریب موجود مقدار ختم نہ ہو اس سے ہاتھ کھینچنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ریوڑی خالص دیسی گھی ، گڑ اور دیسی تلوں سے تیار کی جاتی ہے، ملک کے کونے کونے اور بیرون ملک بھجوانے کے لئے محض دو ہزار من کے قریب ہی ریوڑی سالانہ ہوتی ہے، چکوال میں ریوڑی کے قریب 30 مختلف برانڈ ہیں ۔ چکوال کی ریوڑی راولپنڈی، گلگت بلتستان، لاہور، کراچی اور ملک کے کونے کونے میں بے حد مقبول ہے اسکے علاوہ بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، ملائشیا، جنوبی افریقہ، ایران، ترکی، سعودی عرب ، آذربائیجان، انگلینڈ اور امریکہ میں بھی چکوال کی ریوڑی کے چرچے ہیں ۔ قصوری اندرسے قصوری اندرسے اپنے عمدہ ذائقے اور لاجواب لذت کی بدولت پوری دنیا میں مشہور ہیں، قصور میں تین اقسام کے اندرسے تیار کئے جاتے ہیں جن میں چینی والے، گڑ والے اور کھوئے والے اندرسے شامل ہیں ۔ قصوری اندرسے چاولوں کے آٹے کو چینی اور گڑ کے شیرے کو روایتی انداز میں مکس کر کے کافی وقت کے لئے ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس کی ٹکیاں بنا کر گرم گرم گھی میں فرائی کیا جاتا ہے۔ بابا بلھے شاہ کی نگری کی مشہور سوغات کو خستہ ہونے کی وجہ بہت پسند کیا جاتا ہے، قصوری اندرسوں کو شہری خود بھی کھاتے ہیں اور دوست احباب کے لئے بطور تحفہ بھی لے کر جاتے ہیں، چینی والے اور گڑ والے اندسے کرسپی جبکہ کھوئے والے اندرسے نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ اندرسے گھی میں فرائی ہونے کی وجہ سے خراب نہیں ہوتے، اندرسے یوں تو ہر موسم میں شہری کھانا پسند کرتے ہیں مگر سردی کے موسم میں اگر گرما گرم چائے کے ساتھ گرم گرم اندرسے بھی ہوں تو چائے کا مزہ دوبا لا ہو جاتا ہے۔ عباس نگر کی چنری بہاولپور کے نواہی علاقے عباس نگر جہاں کی چنری دنیا بھر میں بے حد مقبول ہے، خوبصورت رنگوں سے مزین یہ چنری کسی کارخانے کی بجائے گھروں میں ہاتھ سے تیار کی جاتی ہے، چنری کی تیاری ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے سفید کپڑے کو کاٹ کر اس پر پنسل سے دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جانے کے بعد 15 دن کے طویل پراسیس کے بعد خواتین کے لئے ایک چنری تیار کی جاتی ہے۔ چنری پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین میں بے حد پسند کیا جاتا ہے، بہاولپور کی یہ چنری تیار ہونے کے بعد دنیا بھر میں خواتین کے خوبصورت پہناوے کے شوق کو پورا کرتی ہے، مارکیٹ پہنچنے کے بعد یہ چنری خواتین کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے، ساتھ مختلف رنگوں سے تیار ہونے والی اس چنری کو چولستانی چنری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دیدہ زیب اور خوبصورت رنگوں سے تیار کی جانے والی عباس نگر کی یہ چنری جہاں ملک بھر میں خواتین کی اولین پسند ہے وہیں اس علاقے کے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار بھی اس چنری سے جڑا ہے، چنری بنانے والوں کا کہنا ہے اگر حکومت ہماری پذیرائی کرے تو ہمارا شعبہ صنعتی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage