
میں یہاں زیتون کی شاخ (امن کا پیغام) اور مجاہد آزادی کی بندوق لے کر آیا ہوں۔ میرے ہاتھ سے زیتون کی اس شاخ کو گرنے مت دیجیے۔یہ تقریر کرنے والے کوئی اور نہیں امت مسلمہ کے لیڈروں میں سے ایک یاسر عرفات تھے۔
اگلے دن یہ تقریر دنیا کے ہر بڑے اخبار کی سرخی بنی اور اس تقریر کے نو دن کے اندر اندر اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر 3237 منظور کر کے پی ایل او کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دے دیا۔
13 نومبر 1974 کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس دن سخت سکیورٹی تھی۔فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
پہلی بار کسی ایسے شخص کو یہ اعزاز حاصل ہونے والا تھا جو کسی ملک کا قائد نہیں تھا، یاسر عرفات کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ انہوںنے کبھی اپنے اصولوں اور نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن جب وہ اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے لیے آئے تو انہوںنے خلاف توقع پنی داڑھی مکمل طور پر صاف کروا دی تھی، انہوںنے سلیقے سے استری کیا ہوا خاکی سوٹ پہنا تھا اور وہ بالکل چمک رہے تھے۔
یاسر عرفات اپنی حفاظت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رہتے تھے اس حوالے سے ان کے سیاسی مشیر کہا کرتے تھے کہ ’عرفات کسی جگہ بیٹھنے سے پہلے ہر اس زاویے کا مطالعہ کرتے کہ جہاں سے ان پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ ہم گفتگو میں محو ہوتے تھے کہ عرفات اچانک ہمیں روک کر اپنی جگہ تبدیل کر لیتے۔ ہم نے ان سے کبھی اس کی وجہ نہیں پوچھی۔ ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اتنا خفیہ رکھا جاتا تھا کہ ان کے قریبی لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔‘
یاسر عرفات نےاپنی جوانی کا سنہرا دور فلسطین کی آزادی کے نام کردیا یہ ہی وجہ ہے کہ وہ وقت پر شادی نہیں کرپائے۔یاسر عرفات نے اپنی زندگ میں بہت دیر سے شادی کی وہ اپنی شادی کے حوالے سے پہلے تو کہا کرتے تھے کہ ان کی شادی تو فلسطین سے ہےتاہم بعد میں انھوں نے صوحہ سے شادی کی۔
صوحہ مسیحی جبکہ عرفات سُنی مسلمان تھے
کہتے ہیں کہ صوحہ عرفات کو بہت چاہتی تھیں۔وہ غزہ میں بہت معمولی اور چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، جس میں دو منزلیں تھیں۔ عرفات پہلی منزل پر رہتے تھے اور گراؤنڈ فلور پر ان کی بیوی اپنی بچی کے ساتھ رہتی تھیں۔
یاسرعرفات نے ہمیشہ فوجی سوٹ پہننے کو ترجیح دی،اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سوٹ اور ٹائی کومغربی لباس کہتے تھے جس سے عیاشی کا عنصر جھلکتا تھا اوران کے لیے عیاشی کا مطلب بدعنوانی تھا۔یاسر عرفات کی خصخصی داڑھی دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غریب فلسطینی کسان ہیں۔ ان کا لباس بھی انھیں میدان جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر پیش کرتا تھا جس کے پاس ذاتی عیاشی کے لیے وقت نہیں تھا۔
یاسر عرفات اپنے فضائی سفر کو بہت خفیہ رکھتے تھے اور میزبان ملک کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ وہاں آنے والے ہیں۔ ان کا اکثر بھارت آنا ہوتا تھا ،اس حوالے سے بھارتی ریٹائرڈ سیاستدان اور صحافی یہ کہتے ہیں کہ جب بھی عرفات یہاں آتے تھے، پہلے سے ہمیں بتاتے نہیں تھے۔
ایک دو گھنٹے پہلے ہی خبر آتی تھی کہ وہ آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی ہمیشہ اُن کا استقبال کرنے ہوائی اڈے پر جاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ (میری بہن) کہہ کر پکارتے تھے۔
دیگر سیاستدانوں کی طرح یاسر عرفات بے نظیر بھٹو کے بھی بہت قریب تھے،ایک بار دونوں کے درمیان ایک مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا۔جب بے نظیر وزیرِ اعظم بنیں تو انھوں نے اپنے چیف آف پروٹوکول ارشد سمیع خان سے کہا کہ خیال رکھیں کہ میں کسی مرد لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتی۔اسی دوران عرفات کراچی پہنچے تو بے نظیر ان کا استقبال کرنے ایئرپورٹ گئیں۔
ارشد سمیع خان اپنی سوانح عمری ’تھری پریذیڈنٹ اینڈ این ایڈ‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ چیف آف پروٹوکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاز کے اندر جائیں اور بیرون ملک سے آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہیں۔ میں عرفات کے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ بے نظیر نے مجھے بلایا اور میرے کان میں سرگوشی کی ’عرفات کو یاد دلانا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔
‘ جیسے ہی عرفات سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا، ’ایکسی لینس، بے نظیر بھٹو نیچے آپ کے استقبال کے لیے کھڑی ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ وہ مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔ عرفات نے کہا ’ہاں، ہاں مجھے اس بارے میں کئی بار بتایا جا چکا ہے تاہم یاد دلانے کا شکریہ۔
ارشد سمیع مزید لکھتے ہیں: ’عرفات کے اترتے ہی میں نے دیکھا کہ انھوں نے بے نظیر سے مصافحہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بے نظیر نے مجھے گھورتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ابھی ہم لوگ چل ہی رہے تھے کہ انھوں نے مجھ سے اردو میں سرگوشی کی تاکہ عرفات نہ سمجھ سکیں، ’آپ نے انھیں نہیں بتایا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔ بشکریہ: بی بی سی
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage