انتخابات کیس: الیکشن کمیشن اور وفاق کو نوٹس جاری
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے انتخابات کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان بینچ کا حصہ ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، درخواست گزار عباد الرحمان لودھی اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کی تو رجسٹرار آفس اعتراض کیخلاف اپیل ہے، یہ اپیل چیمبر لگی ہے کورٹ میں کیسے لگ گئی ؟ عابد زبیری صاحب آپ کیا مانگ رہے ہیں، آپ نے درخواست کب دائر کی اپنی استدعا پڑھیں۔ عابد زبیری نے عدالت کو اپنی درخواست کی استدعا پڑھ کر سنائی۔ چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے کب درخواست دائر کی اور ابھی تک لگی کیوں نہیں۔ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ اگست کی ہی درخواست تھی مگر کیس فکس نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کورٹ سٹاف نے نوٹ دیا ہے کہ آپ نے جلد سماعت کی کوئی درخواست نہیں دی، سپریم کورٹ بار کی وکالت اب آپ کریں گے، یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیے تھا، مردم شماری کب ہوئی اور ختم کب کوئی۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ یہ میرے علم میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آرٹیکل 19 کے تحت ایک چٹھی لکھ کر پوچھ لیتے، آپ تو پریس ریلیز دکھا رہے ہیں۔ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ یہ پریس ریلیز ہی دستیاب تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے مردم شماری 18 ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہوگی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مردم شماری کا تعلق کیا انتخابات سے ہے، مردم شماری کے لیے آئین کا مینڈیٹ کیا ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی صرف پالیسی بنانے کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا مردم شماری آئینی ضرورت ہے؟ جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی سر۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگلا سوال پھر وہی ہوگا کہ مردم شماری کب ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے پہلے مردم شماری کب ہوئی؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ اس سے پہلے مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں تو لکھا تھا کہ وہ ایک عبوری مردم شماری تھی، کیا اس کے بعد کوئی ختمی مردم شماری بھی ہوئی، کیا اس مردم شماری پر حتمی ہونے کا کوئی ٹھپہ لگا، اگر 2017 والی مردم شماری فائنل نہیں ہوئی تو پھر فرق آجائے گا ؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر موجودہ مردم شماری نہ مانی جائے تو کیا الیکشن 2017 والی پر ہونگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 2017 والی عارضی مردم شماری کو صرف انتخابات 2018 کے لیے استعمال کرنے کا کہا تھا، اگر مان لیں کہ موجودہ مردم شماری کالعدم ہوگئی تو آپ کی استدعا کیا ہوگی، کیا آپ دوبارہ مردم شماری کا کہیں گے یا پرانی پر ہی الیکشن کی استدعا کریں گے۔ عابد زبیری کے پرانے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ ابھی آپ کا کیس سمجھا نہیں اور آپ فیصلوں پر آگئے، اگر سب کچھ پرانے فیصلوں میں لکھا ہے تو آپ دلائل ہی نہ دیں، آپ نے کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: درخواستوں پر فیصلہ محفوظ چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی دلائل دیں جذباتی نہیں، اگر اب الیکشن ہونے ہیں تو وہ 90 روز میں تو نہیں ہوسکتے، کیا آپ اب بھی 90 روز میں انتخابات والی استدعا پر دلائل دیں گے، نگران حکومتی آئینی ہوتی ہیں آپ نے غیر آئینی لکھا ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ ہم نے استدعا کی ہے کہ دو نگران وزراعلی کی مشترکہ مفادات کونسل میں شرکت کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب آپ 2017 والی مردم شماری پر انتخابات چاہتے ہیں، آپ یس یا نو تو کہیں، ہم اگر مگر پر نہیں چلیں گے آپ آئنی درخواست لائے ہیں، آپ کو ایک پوزیشن لینا ہوگی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس مردم شماری میں پڑیں گے الیکشن مزید التوا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مائی لارڈ نے بالکل ٹھیک کہا آپ کہ درخواست کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے، یہ بھی دیکھ لیجیے گا آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست دی یا نہیں، ہمارے ریکارڈ میں جلد درخواست نہیں۔ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک چیز منسوخ ہوگئی تو اسکا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 2017 میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا ؟ کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا ؟ آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلارہے، وکیل جب سیاستدان بن جائے تو یہی ہوتا ہے، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضہ تھے۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ اپریل 2022 میں ایک حکومت ختم ہوئی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اتنی تشویش تھی تو 2017 سے 2021 تک درخواست دائر کیوں نہیں کی، اب جب مردم شماری ہوگئی ہے تو آپ کہہ رہے ہیں مردم شماری غلط ہوئی ہے۔ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ میرا کہنا یہ نہیں کہ 2023 کی مردم شماری غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 2017 سے 2021 تک مردم شماری کی منظوری میں چار سال لگ گئے، 2021 کی مردم شماری کا آغاز بھی سپرم کورٹ کے فیصلے سے ہوا، مردم شماری کرنا مشکل کام ہے لیکن اسکی اپرول آسان ہے، صرف بلوچستان حکومت تھی جس میں مردم شماری کی گئ جب میں بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تھا۔ چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کنٹیمپٹ کی درخواست کیوں نہیں دیتے، اگر آپ سمجھتے ہیں فیصلہ غلط ہوا تو درخواست دائر کریں، یا یہ کہ آپ الیکشن نہیں چاہتے۔ جسٹس عطر من اللہ نے کہا کہ اگر الیکشن کیلئے مردم شماری ضروری نہیں ہے تو آپ کی درخواست کیا ہے۔ چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مان لیں اگر سب غلط چل رہا ہے تو یہ بتائیں ہم کیسے اس کیس کو چلائیں، تاریخ دینے کے حوالے سے قانون میں ترمیم ہوگئی تھی، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 48 سے متصادم ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں؟ انتخابات تو ہونے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ صدر مملکت کو ایک وکیل نے خط لکھا، اس کا کیا جواب ملا؟ جس پر درخواست گزار منیر احمد نے کہا کہ صدر مملکت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار منیر احمد نے بھی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا پر انتخابات کیس پر لمبی لمبی بحث ہوتی ہے، ہم کیس لگائیں تو الزام، کیس نہ لگائیں تو بھی ہم پر الزام، یہ ایسا مقدمہ ہے جو ہر صورت لگنا چاہیے تھا، آج وکلاء کے پاس مقدمے کی فائل ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد ہم نے اہم مقدمات لگانا شروع کر دیئے، میڈیا پر لمبی لمبی تقریریں اور کمرہ عدالت میں وکیل کے پاس کچھ نہیں ہوتا، اگر ہم نے تاخیر کرنا ہوتی تو فوجی عدالتوں کا نیا بینچ بنا دیتے، میڈیا ہم پر انگلی اٹھائے اگر ہم غلطی پر ہیں، کیس عدالت میں چلانا ہے یا ٹی وی پر چلانا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپنا مقدمہ صرف 90 دن میں انتخابات پر رکھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 90 دنوں والی بات ممکن نہیں، وہ بات بتائیں جو ممکن ہو، آپ کا سارا مقدمہ ہی صدر مملکت کے اختیارات کا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے تو پھر تاخیر کا زمہ دار کون ہے، آئینی کام میں تاخیر کے نتائج ہونگے۔ انور منصور نے کہا کہ صدر مملکت کے خط کے بعد تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت نے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی؟ آپ ایک وقت میں دو مختلف دلائل نہیں دے سکتے، آرٹیکل 48 پر انحصار کریں یا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کی؟ جس دستاویز کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں صدر مملکت خود رائے مانگ رہے ہیں، کیا سپریم کورٹ ایک ٹویٹ پر فیصلے دے؟ ٹویٹس میں صدر مملکت اپنے آئینی اختیارات کی بات نہیں کر رہے۔ وکیل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ صدر نے خط لکھا جس میں الیکشن کی تاریخ دی گئی۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر کا الیکشن کے حوالے سے خط کیس کے ریکاڑ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ صدر کا الیکشن کے حوالے سے خط میرے پاس موجود نہیں ہے، مجھے خط تک رسائی نہیں دی گئی وہ ایک خفیہ دستاویز تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف آپ صدر کے خط کا زکر کر رہے دوسری طرف کہ رہے یہ خفیہ دستاویز ہے۔ چیف جسٹس نے انور منصور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایسے صدر کے اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں، بہت اخلاق والے صدر ہیں آپ فون بھی کرتے تو آپ کو بتا دیتے، یا تو اس خط کو عدالت میں پیش کریں یا اسے سیکرٹ کہیں، ہم کیس کو ریکاڑ کے مطابق دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل انور منصور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو ٹی وی چینلز پر کیس چلائیں یا عدالت میں، سارا سارا دن ٹی وی چیلنز پر بیٹھ کر کیس پر بحث کی جاتی ہے، ہم ایک دن میں الیکشن کے کیس کو سننا چاہتے ہیں، اگر ہم ان سب باتوں میں پھنس گئے تو الیکشن ہونگے نہیں، کبھی کہتے ہیں مردم شماری ٹھیک نہیں ہوئی، تو کبھی کسی اور نکتے میں الجھا دیتے ہیں ایسے میں ہمیں سب کو سننا پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں شروع کر دیں، بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 14 دسمبر تک مکمل ہوگا۔ حکم میں کہا گیا کہ درخواست گزار مردم شماری کے عمل، اس کی منظوری اور حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں، درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل انتخابات کی تاخیر کا بہانہ ہے، درخواست گزاروں نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں کرانا آئینی تقاضا ہے، درخواست گزاروں کے مطابق حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے بعد 90 دنوں میں الیکشن ممکن نہیں۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage