صوفی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید کی عرس تقریبات جاری
Image

راجن پور:(سنونیوز)عظیم صوفی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات کا آج دوسرا روز ۔ ملک بھر سے عقیدت مندوں اور زائرین نے کوٹ مٹھن کا رخ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق زائرین کے لیے خصوصی انتظامات اورسیکورٹی کے فول پروف اقدامات کئے گئے ہیں۔خواجہ فرید کی صوفیانہ شاعری فطرت کی عکاس اورفکر فرد شناسی سے خدا شناسی تک پھیلی ہوئی ہے۔ آپ کو عربی ،فارسی ،اردو اور سرائیکی سمیت سات زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔اس لیے آپ کو ہفت زبان شاعربھی کہا جاتا ہے۔خواجہ فریدکی صوفیانہ شاعری فطرت کی عکاس ہے۔

رصغیر کے نامور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید23 دسمبر 1845ء کو چاچڑاں،ریاست بہاول پور میں پیدا ہوئے۔والد کا نام خواجہ خدا بخش عرف محبوب الٰہی تھا۔آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے"کوٹ مٹھن" کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا جہاں پہلے آپ کے اجداد نے سکونت اختیار کی۔بعد ازاں چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے۔ آپ کی پیدائش بھی وہیں پر ہوئی۔

آٹھ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا۔جس کے بعد آپ چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کی سرپرستی میں رہے۔ریاست بہاولپور کے نواب خاندان کے تمام افراد آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے مریدین میں شامل تھے۔ بعد میں 13 سال کی عمر میں چاچڑان حاضر ہوکر بڑے بھائی خواجہ غلام فخرالدین کے ہاتھ پر بیعت کی جو ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھے۔ آپ نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ستائیس سال کی عمر میں بڑے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ۔جس کے بعد آپ خود مسند نشیں ہوئے اور والدین سے ملنے والے روحانی فیض کو جاری رکھا۔خواجہ غلام فرید نے مسندنشیں ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر لنگر خانے کا اہتمام کیا۔

آپ بہت سخی دل اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ دیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے گزر بسر کرتے تھے۔ خواجہ غلام فرید نے اپنے روحانی تجربات کو شاعری کے ذریعے عام لوگوں تک اور اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ۔"کافی"آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں صنف ہے، جس کو سرائیکی ادب کا بہت بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔

آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی اور اس میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ۔ زندگی کے معاملات کا کوئی زاویہ ایسا نہیں جس کا احاطہ ان کی شاعری میں نہ کیا گیا ہو ۔ اس حوالے سے خواجہ فریدؒ کے ہاں فکری اعتبار سے ایسا تنوع موجود ہے جو ان کے علاوہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں دکھائی نہیں دیتا ۔خواجہ فریدؒ کی کافیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں لفظ و معنی کا ایک اور ہی جہاں آباد ہے ۔ اس تنا ظر میں انہوں نے جو علامتی اور استعاراتی نظام تخلیق کیا ہے اس کی اساس انکے اپنے وسیب پر ہے اور اس وسیب کا پورا عکس ان کے اسلوب و بیان کی توانائی اور رعنائی کے ساتھ ابھرا ہے۔

خواجہ صاحب کے کلام میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا سراغ ملتا ہے لیکن عشق حقیقی کا رنگ آپ کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور غالب ہے۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage