
تحریر: حماد حسن
انسانی سروں کا ایک سمندر یقینا ً اس کے سامنے تھا اور وہ بے بسی کے دنوں کی ان دکھوں کو یاد کرتا اور ان کا ذکر کرتا رہا جو اس نے نا صرف ذاتی طور پر جھیلے بلکہ اس کے خاندان اور سیاسی ساتھیوں کو بھی یہ دکھ اور اذیتیں بھگتنا پڑیں۔
کلثوم نواز کی آخری سانسوں کے وقت کو بھی یاد کیا، ایک فون کرنے کی التجا اور انکار کا ذکر بھی لے بیٹھا۔ اپنی اہلیہ کی موت کی خبر اور مریم نواز کے بے ہوش ہونے کا واقعہ بھی سنایا۔ اپنے سامنے اپنی بیٹی کی گرفتاری اپنی بے بسی اور مریم نواز کی چھوٹی بیٹی کی سسکیوں کا واقعہ بھی بیان کیا۔
شہباز شریف پر توڑے جانے والے مظالم کو بھی یاد کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی بات کی۔ لیکن تلخی اور انتقام کو جھٹلایا بھی اور اس سے نفرت کا اظہار بھی کیا۔ گویا ایک عام سیاسی لیڈر کی بجائے ایک سٹیٹس مین بن کر ابھرا۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے مزید آگے بڑھا۔ میرا بیانیہ اورنج ٹرین ہے ، پشاور سے کراچی تک موٹر وے منصوبہ ہے، دنیا کے بڑے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ سی پیک ہے، گلگت سے سکردو تک ہائی وے ہے، چترال کا لواری ٹنل ہے، 2017ء میں جی ٹونٹی کی طرف پیش رفت تھی، ملک کی خود مختاری کی خاطر بل کلنٹن کے پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کو ٹھکرانا تھا اور تباہ شدہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا تھا۔ اور میرے بھائیوں اور بہنوں سنو میرا یہ "بیانیہ " آپ کے سامنےہے۔
تقریر کا یہ حصہ سمیٹتے ہوئے کہا کہ میری تربیت اور پرورش مختلف ہے، میں جھوٹ بھی نہیں بولتا ، گالیاں بھی نہیں دیتا اور الزامات بھی نہیں لگاتا بلکہ اپنا کام اور کارکردگی دکھاتا ہوں اور اس کی گواہی پورا ملک دیتا ہے۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھا اور ملک سے غربت کے خاتمے ، معیشت کی بہتری، امن انصاف اور استحکام کے حصول کے راستے کی نشاندہی بھی کر ڈالی۔ دائیںہاتھ پر کہیں سے اڑ کر آنے اور بیٹھنے والے سفید کبوتر کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ بلند کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ آئیں سب مل کر بیٹھیں اور آئین و قانون کی بالادستی اورمضبوطی کےلئے خلوص نیت کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ یہ بد نصیب ملک اور مسائل کے شکار عوام کو تباہی و بربادی کی دلدل سے نکال کر معاشی ترقی مثالی انصاف اور امن و استحکام کے محفوظ اور روشن راستے پر ڈالیں تا کہ ہم خوشحال بھی ہوں پر امن بھی اور محفوظ بھی۔ لیکن یہ راستہ صرف اور صرف آئین و قانون کی سربلندی اور یکساں عملداری ہی سے نکلے گا۔
حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ پوری تقریر کے دوران اس نے جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور ثاقب نثار تو کیا کہ عمران خان تک کا نام بھی نہیں لیا ۔ اگر ذکر کیا تو اپنے دکھوں کا کیا، اگر پریشان نظر آئے تو اپنے بدنصیب وطن کے لئے پریشان نظر آئے ، اگر کوئی بیانیہ اٹھایا تو مفاہمت اور مشاورت کا اٹھایااور اگر تمام مسائل کا کوئی حل بتایا تو آئین و قانون کی بالادستی کا بتایا۔
میرا کہنا یہی ہے کہ سیاست تو ہوتی رہے گی، اختلاف بھی ہوتا رہے گا اور ہم بحیثیت صحافی تنقید اور گرفت بھی کرتے رہیں گے لیکن کم از کم نواز شریف کی ان باتوں سے کوئی صاحب عقل اختلاف کی گنجائش کہاں سے نکال لے؟ البتہ سیاسی بغض، نفرت اور حماقت کی بات الگ ہے۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage