اسرائیل کو غزہ میں جرائم کیلئے جوابدہ ہونا چاہیے: سعودی عرب
Image
ریاض: (سنو نیوز) سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں اس کی صریح خلاف ورزیوں اور جرائم پر جواب طلبی کرے۔ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بیجنگ کا دورہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ نو آبادیاتی قابض حکام کے جرائم کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں اور غزہ، یروشلم اور مغربی کنارے میں ان کے جرائم پر جواب طلبی کی جائے، اس دورے کا مقصد فوری ریلیف کی گذرگاہوں کو محفوظ بنانا اور ایک سنجیدہ سیاسی عمل شروع کرنا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب کہ مملکت کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان عرب وزراء کے ایک وفد کی قیادت کر رہے تھے جس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے کئی مستقل ارکان کے دارالحکومت کا دورہ شروع کیا۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ – جن میں اردن، فلسطینی اور مصری وزراء شامل ہیں – اور اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء اس وقت غزہ کی جاری صورتِ حال پر بات چیت کے لیے بیجنگ میں ہیں۔ اس دورے کا مقصد محصور انکلیو میں فوری جنگ بندی کے لیے زور دینا ہے جس نے 45 دن تک مسلسل اسرائیلی بمباری برداست کی ہے۔ علاقے کی حکومت کے مطابق سات اکتوبر سے اسرائیل کے فضائی حملوں میں کم از کم 13,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں کم از کم 5,500 بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی جارحیت، شہداء کی تعداد 13 ہزار سے بڑھ گئی دوسری جانب اسرائیلی فوج نے الشفا ہسپتال کے بعد انڈونیشین ہسپتال کے بھی گھیراؤ کا منصوبہ بناتے ہوئے ہسپتال کے اطراف میں بم برسا دئیے۔ غزہ میں فضائی حملوں میں مزید 31 فلسطینیوں کی شہادت کے بعد مجموعی تعداد 13 ہزارسے بڑھ گئی۔ چند روز قبل غزہ کے الشفاء ہسپتال پر اسرائیلی فوج کے حملے کو پوری دنیا میں غیرمعمولی توجہ حاصل ہوئی۔ ہسپتال میں اسرائیلی فوج نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا اور دسیوں نہتے اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ الشفاء ہسپتال کے ایک ڈاکٹر رامیز رضوان نے بتایا کہ جب اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر بمباری شروع کی تو وہ وہاں سے کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں نکل گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہسپتال میں جو المیہ ان دنوں دیکھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہر طرف بے بسی، موت اور زخموں سے کراہتے مریض اور چیخ پکار تھی۔ ڈاکٹر رامز رضوان نے بتایا کہ ہسپتال کی حالت خوفناک ہوچکی تھی اور ہر طرف ظلم کا راج تھا۔ ایسے تباہ کن مناظر میں نے ہسپتال میں اپنے پورے کام کے دوران کبھی نہیں دیکھے۔ ہر طرف لوگوں کی چیخ پکار تھی، آہ وبکاہ تھی، گلتی سڑتی لاشیں تھیں، بھوک اور پیاس سےنڈھال بچے، بوڑھے اور عورتیں تھیں اور ان کے سروں پر اسرائیلی فوج کی بمباری اور توپ خانے کی گولہ باری تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ زخمیوں کو پورے بستروں پر رکھا گیا تھا، طبی سامان اور علاج کی کمی کے نتیجے میں ان کی حالت بہت نازک تھی۔ زخمیوں کے پاؤں میں بیکٹیریا ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ زخموں سے ’کیڑے‘ نکل رہے تھے اور ہسپتال میں زخمیوں کو دینے کے لیے درد کش دوا تک نہیں تھی، اسرائیلی فورسز مردہ خانے سے 1500 لاشیں اٹھا کر انہیں گاڑیوں میں نامعلوم مقامات پر منتقل کیا۔ یاد رہے کہ جنگ کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں 2.4 ملین افراد کی کل آبادی میں سے 1.65 ملین سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد اسرائیل نے 2007ء سے غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ ناکہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے پانی، بجلی، خوراک اور ایندھن کو منقطع کر دیا، جس کی وجہ سے بحران بڑھتا گیا۔ غزہ کے بیشتر ہسپتالوں میں ایندھن ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے جنریٹر کو چلانے میں ناکام ہیں۔ حماس کی حکومت کے مطابق غزہ کی پٹی کے 35 ہسپتالوں میں سے 24 غیر فعال ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ غزہ کی پٹی کا سب سے بڑا ہسپتال الشفاء میڈیکل کمپلیکس ایک "ڈیتھ زون" بن گیا ہے اور اسے خالی کر دیا جانا ضروری ہے۔ ہفتے کی صبح اسرائیلی فوج کی طرف سے ہسپتال کو ایک گھنٹے کے اندر اندر خالی کرنے کا حکم دیا گیا جس کے بعد سیکڑوں مریض اور طبی عملہ ہسپتال چھوڑ گیا۔