اسرائیل کا غزہ کے ہسپتال پر فضائی حملہ، سینکڑوں فلسطینی شہید
Image

غزہ: (سنو نیوز) اسرائیل نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں ہسپتالوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ تازہ فضائی حملے میں پانچ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔ شہدا میں مریضوں کی بڑی تعداد اور طبی عملہ شامل ہے۔ شہدا کی تعداد3 ہزار سے زائد ہوگئی۔

تفصیل کے مطابق اسرائیل ب نہتے فلسطینیوں کیخلاف فرعونیت پر اتر آیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق ہسپتال پرفضائی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ واقعے کی وجہ معلوم نہیں ، فوج اس کی تفصیلات تلاش کر رہی ہے۔

:اسرائیل کا ہسپتال پر حملہ جنگی جرم

حماس، جو اس وقت اسرائیلی فوج کے ساتھ برسرپیکار ہے، نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ اس نے ایک پریس ریلیز میں کہا، "ہسپتال میں سینکڑوں مریض اور زخمی تھے، اور وہا   وہ لوگ جو میزائل حملوں کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے، انہیں بھی پناہ دی گئی تھی۔" پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اب بھی سینکڑوں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہسپتال میں میں چیخ وپکار سنائی دے رہی ہیں۔ ہر طرف آگ، اندھیرا اور دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں صرف لاشیں اور تباہ شدہ گاڑیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔اس حملے کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے تین روزہ قومی خوف و ہراس کا اعلان کیا ہے۔

غزہ تباہی کے دہانے پر:

اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ صدر بائیڈن اسرائیل کی حمایت کا اظہار کرنے اسرائیل جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن بھی اسرائیل میں ہیں ، جن کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی پر توجہ دیں گے۔اس کے بعد صدر بائیڈن اردن کا دورہ کریں گے جہاں وہ شاہ عبداللہ، فلسطینی صدر محمود عباس اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بحران پر بات کریں گے۔

2000 امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تعیناتی کے لیے تیار:

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے اعلان کیا ہے کہ تقریباً 2000 امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تعیناتی کے لیے اسرائیل کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے: ’’آج سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جواب دینے کے لیے تقریباً 2000 فوجیوں اور کچھ یونٹوں کو تیار کیا ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ "فی الحال، فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔"

امریکا ہر حال میں اسرائیل کی حمایت اور مدد کیوں کرتا ہے؟

اسرائیل اور امریکا کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہیں"۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے مختلف بیانات دیے ہیں جن میں ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ حمایت صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ عمل سے بھی ثابت ہے۔ حملے کے پہلے چار دنوں میں امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے تین بار فون پر بات کی، جس سے اس کو خطے کو سب سے زیادہ امریکی حمایت حاصل ہوئی۔ اسرائیل کو جدید جنگی طیارے (جیرالڈ فورڈ) کے ساتھ ساتھ ضروری ہتھیاروں کے ساتھ بحری جہاز بھیجا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن اسرائیل گئے جب کہ امریکی صدر نے کانگریس سے اسرائیل کو دفاعی امدادی پیکج کی منظوری کے حوالے سے تقریر کی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی سیاست میں اس قسم کی کارروائی کی گئی ہو۔ اسرائیل کے حوالے سے امریکا کا یہ موقف کئی دہائیوں پرانا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل امریکی فوجی ساز و سامان کا سب سے بڑا وصول کنندہ رہا ہے۔گذشتہ مارچ میں شائع ہونے والی امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق 1946ء سے 2023 ء تک امریکا نے اسرائیل کو 260 ارب ڈالر دیے ہیں جن میں سے نصف فوجی امداد تھی۔

غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 3 ہزار ہو گئی:

فلسطین کی وزارت صحت نے کہا کہ 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران زخمیوں کی تعداد 12500 تک پہنچ گئی۔ غزہ میں وزارت صحت کے ترجمان نے ہسپتالوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجلی اور ایندھن کی قلت کے باعث منہدم ہو رہے ہیں۔

فضائی حملے میں حماس کا ایک سینئر کمانڈر مارا گیا:

حماس نے اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے ایک سینئر کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ حماس نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ ایمن نوفل نامی یہ کمانڈر غزہ کے وسطی علاقے کا انچارج تھا۔

حماس کے حملوں میں 21 فرانسیسی شہری مارے گئے:

فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک نیوز لیٹر میں کہا ہے کہ حماس کے حملوں میں 21 فرانسیسی شہری مارے گئے۔ بیان میں کہا گیا ہے: "11 فرانسیسی شہری ابھی تک لاپتہ ہیں، ان میں سے کچھ کو حماس گروپ نے اغوا کیا ہو گا۔" فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ غزہ میں مغویوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔ مسٹر میکرون نے لوگوں کو "یرغمال بنانے" کو ناقابل قبول قرار دیا۔

عالمی ادارہ صحت کی درخواست:

عالمی ادارہ صحت نے غزہ میں پناہ گزینوں کے لیے ہنگامی امداد تک رسائی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کو امداد اور طبی سامان تک فوری رسائی کی ضرورت ہے۔جبکہ تنظیم نے ایک طویل المدتی انسانی بحران سے خبردار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے حکام نے بتایا کہ حماس کے مہلک حملوں کے بعد اسرائیل کے جوابی حملوں کے آغاز سے اب تک غزہ میںتین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے نصف خواتین اور بچے ہیں۔ تنظیم نے یہ بھی کہا کہ ان حملوں میں تقریباً 11,000 افراد زخمی ہوئے اور انہیں ہنگامی طبی امداد کی ضرورت ہے۔

غزہ تک رسائی کا کوئی راستہ نہیں:

فی الحال، غزہ تک رسائی کا کوئی راستہ نہیں ہے، لیکن اقوام متحدہ اس علاقے میں "فیصلہ سازوں" سے ملاقات کر رہا ہے تاکہ جلد از جلد رسائی کا راستہ کھولا جا سکے۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ غزہ میں صحت کے مراکز پر 115 حملے ہو چکے ہیں اور کئی ہسپتالوں میں پانی یا بجلی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ غزہ کے بیشتر علاقوں میں پانی نہیں ہے۔

جرمن وزیر اعظم کا اسرائیل کا دورہ:

جرمن وزیر اعظم اولاف شولٹز اسرائیل اور پھر مصر روانہ ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے ’تمام فریقین‘ سے بات کرنا ضروری ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اردن میں ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مسٹر شلتز نے یہ بھی درخواست کی کہ شہریوں تک انسانی امداد پہنچانے کے لیے ایک محفوظ راستہ بنانے کے لیے کام کیا جانا چاہیے۔

غزہ میں کوئی انسانی جرم نہیں ہوا: اسرائیل

اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ ہیچ نے غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کی تردید کی ہے۔7 اکتوبر کو حماس کے مہلک حملوں کے آغاز کے بعد سے، اسرائیل نے سرحد کے ساتھ ساتھ پورے علاقے میں ایندھن، پانی اور بجلی منقطع کر دی ہے۔ آج صبح، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔

اسرائیل کو ایران کا انتباہ:

ایرا ن نے اسرائیل کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطینیوں پر حملے ہوتے ہیں تو دوسرے گروہ اسرائیل پر حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے لیے غزہ پر حملے جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا اور ان کے بقول اگر حملے بند نہ ہوئے تو ان کے خلاف آپریشن کا امکان ہے۔ حسین امیر عبدالحیان نے کہا کہ "اگر غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم بند نہ ہوئے تو وہ (مداخلت پسند قوتیں) اگلے چند گھنٹوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں"۔ یہ مزاحمتی گروپ یا فورسز خطے میں حزب اللہ سمیت کئی طرح کی قوتوں کا مشترکہ اتحاد ہے جو لبنان میں کافی سرگرم ہیں۔ مزاحمتی قوتوں میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جن کی ایران شام میں حمایت کرتا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ واقع ہے۔