عوامی مقامات سے تمام سیاسی بینرز ہٹانے کا حکم
Image

کراچی :(سنونیوز)سندھ ہائیکورٹ کاکراچی میں عوامی مقامات سے تمام سیاسی بینرز ہٹانے کا حکم، عدالت نے معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کام نہیں کرسکتے تو کنٹونمنٹس بند کردیں۔

سندھ ہائی کورٹ میں عوامی مقامات پر بل بورڈز، ہورڈنگز پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،درخواست گزار نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے 2016 میں بل بورڈز اور ہورڈنگز پر پابندی کا فیصلہ دیا تھا، پابندی کے باوجود پبلک مقامات پر بل بورڈز لگائے جارہے ہیں۔

دوران سماعت عدالت نے کے ایم سی اور کنٹونمنٹ کی نمائندگی کرنے والے وکلا سے کہا شہر کو جنگل مت بنائیں، جائیں جاکر اپنی ذمہ داری پوری کریں،اگر کام نہیں کرسکتے تو کنٹونمنٹ کو بند کردیں۔سندھ ہائی کورٹ نے کراچی بھر سے سائن بورڈز، ہورڈنگز، فلائی اوورز اور پیڈیسٹیرین برج سے تمام سیاسی بینرز، سیاسی رہنماوں کی تصاویر ہٹانے کا حکم سناتے ہوئے 31 جنوری کو رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے کہا کہ بل بورڈز اور ہورڈنگز پر جس سیاسی رہنما کی تصویر ہو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز کا کہنا ہے کہ پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کو ختم کرنا ہوگا، سپریم کورٹ میں چوری کے الزام میں نامزد ملزم کاشف کی ضمانت سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملک بھر میں ممنوعہ اسلحے کے کتنے لائسنس جاری ہوئے متعلقہ حکام سے تمام تفصیلات طلب کر لی، سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ، تمام صوبائی ہوم سیکرٹریز، انسپکٹرز جنرل پولیس کو نوٹس جاری کردیا۔اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے حکمنامہ کی کاپی بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ جس کے گھر سے اسلحہ چوری ہوا پولیس نے اس سے لائیسنس تک کا نہیں پوچھا، مالک خود اقرار جرم کررہا ہے دو کلاشنکوف، دو کالا کوف اور ایک پسٹل سمیت دیگر قیمتی چیزیں چوری ہوئیں، مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ آپ کلاشنکوف کا لائیسنس لیں۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/16/01/2024/pakistan/64808/

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کردیا، اسطرح کالے شیشے لگا کر بڑی بڑی گاڑیوں میں کلاشنکوف لیکر دنیا میں کہیں کوئی نہیں گھومتا۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس کلاشنکوف کہاں سے آیا،آئی جی ایسے کلاشنکوف کے کاغذ دے رہے ہی تو کیوں نہ ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے؟ ہم سیکرٹری داخلہ کو لکھ دیتے ہیں تمام کلاشنکوف اور ان کے لائیسنس واپس کریں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سکول اور بازار جاو تو لوگ کلاشنکوف لیکر کھڑے نظر آتے ہیں، ڈرتے ہیں تو گھروں میں رہیں، باہر اسلئے نکلتے ہیں کہ لوگوں کو ڈریا جائے اور اپنا اثر رسوخ دکھا سکیں، اسلام آباد میں کلاشنکوف لیکر گھروں کے باہر گارڈ کھڑے ہیں، کالے شیشے کے ساتھ لوگ کلاشنکوف لیکر جاتے ہیں پولیس کی ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی، کیسے پتہ ہوگا کلاشنکوف والے دہشت گرد تھے یا کوئی اور تھے۔

چوری شدہ اسلحے کا لائیسنس بارے انکوائری میں نہ پوچھنے پر چیف جسٹس کے پی پولیس پر برہم ہوئے، بغیر لائیسنس کا اسلحہ رکھنا جرم ہے اور پولیس نے انکوائری میں مالک سے پوچھا تک نہیں۔

سپریم کورٹ نے چوری پر نامزد ملزم کاشف کی پچاس ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منطور کرلی۔