29 November 2023

Homeپاکستانملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ

ملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی قائم کر دی/فائل فوٹو

ملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ

اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں عدالتی نظام میں جدت لانے کا فیصلہ کرلیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی قائم کر دی۔

سپریم کورٹ نے نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے قیام کا اعلامیہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ جسٹس محمد علی مظہر نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے ممبر ہیں، ہائیکورٹس اور وفاقی شریعت کورٹ کے ججز بھی نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کے اراکین ہوں گے، کمیٹی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سمیت عدالتی نظام میں جدت پر نیشنل پلان مرتب کرے گی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی عدالتی نظام میں ڈیجیٹل جدت لائے گی، کمیٹی انصاف کی بہتری اور کیسز کے طریقہ کار کیلئے موبائل ایپ بنائے گی، کمیٹی عدالتی نظام اور تحقیق میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس متعارف کرائے گی۔

سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ کو ٹیکنالوجی میں جدت اپنانی چاہیے، دنیا صنعتی انقلاب سے ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ چکی، یہی وقت ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور تربیتی پروگرامز سے روشناس کرایا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ انصاف کے شعبے کی ڈیجیٹلائزیشن صرف تبدیلی کی شروعات ہے، وقت کے ساتھ ڈیجیٹل صلاحیتوں کو بڑھانے، انصاف تک رسائی کو مزید بہتر بنانے پر یقین رکھتا ہوں، ملک کیلئے ایک شفاف اور موثر قانونی عمل کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہوں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور ہائیکورٹ کے دور میں ریسورس سینٹر اور مخصوص آٹومیشن پروجیکٹ شروع کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے شروع کردہ نظام سے لاہور ہائیکورٹ میں کیس فلو مینجمنٹ سسٹم بنا، جسٹس محمد علی مظہر نے سندھ ہائیکورٹ کو آئی ٹی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کیلئے کئی اقدامات اٹھائے، نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی،قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کی ایک ذیلی کمیٹی ہے، قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی ہیں، قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا سیکرٹریٹ قانون و انصاف کمیشن میں ہے۔

سپریم کورٹ: سرکاری افسران کیلئے “صاحب” کے لفظ کے استعمال پر پابندی

یاد رہے اس سے قبل سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے “صاحب” کے لفظ کے استعمال پر پابندی لگائی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مردان میں 9 سالہ بچے کے قتل کے ملزم کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ملزم کیخلاف کیا شواہد ہیں؟ جس پر ڈی ایس پی انویسٹی گیشن پشاور نے بتایا کہ دو گواہان نے ملزم کیساتھ بچے کو جاتے ہوئے دیکھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ گواہ تو آپ چار بھی ڈال سکتے تھے شواہد کہاں ہیں ؟ جس پر ڈی ایس پی نے کہا کہ بچہ اپنے چچا کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی چچا اپنے بھتیجے کو کسی غیر کیساتھ کیسے جانے دے سکتا ہے ؟ ورکشاپ والوں نے بچے کے اہلخانہ کو 16 دن بعد کیوں آگاہ کیا ؟ پولیس نے ورکشاپ ملازمین کے بیانات کیوں نہیں ریکارڈ کیے ؟ سب سے ناقص تفتیش کے پی پولیس کی ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے کی کاپی آئی جی کے پی، ایڈووکیٹ جنرل کے پی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی جائے، پولیس نے بچہ مرنے کے ذمہ داران کے تعین کیلئے کوئی تفتیش نہیں کی، ناقص تفتیش کی مثال دینے کیلئے یہ بہترین کیس ہے۔

کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر سے معلومات لینے پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت کو اپنا دفتر سمجھ رکھا ہے ؟ دفتر کے کام عدالت میں کرنا غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے مردان میں 9 سالہ بچے کے قتل کے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران ڈی ایس پی کے ساتھ “صاحب” کا لفظ استعمال کیا گیا، صاحب کے لفظ کا استعمال کسی آزاد قوم کی عکاسی نہیں کرتا، سرکاری ملازم صاحب کے لفظ سے خود کو احتساب سے بالا تصور کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ملزم جاوید خان پر 9 سالہ حمزہ کے قتل کا مقدمہ پشاور میں درج تھا۔

Share With:
Rate This Article