
تحریر: شہریار خان
ایک میچ کیا ہار گئے، پورے ملک کے دانشور چیخنا چلانا شروع ہو گئے۔ یہ سب بکواس کرکٹر ہیں۔ بابر اعظم بیٹنگ کر ہی نہیں سکتا، پتا نہیں کیوں اسے نمبر ون بیٹر کہا جاتا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کو بائولنگ کرانا ہی نہیں آتی ۔ ہر بھارتی بلے باز اس کی دھلائی کر کے چلا گیا۔ یہاں تک کہنے لگ گئے کہ ان سب نے میچ فکس کر رکھا ہے۔
یہ کوئی بات ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ٹیم مستقل مزاج نہیں۔ اب اس سے زیادہ مستقل مزاجی اور کیا ہو گی کہ ورلڈ کپ میں ہم بھارت سے آٹھ مرتبہ کھیلے اور آٹھوں میچ ہم ہار گئے۔ بھارت جیتنا نہ بھی چاہتا ہو مگر ہم لوگ اپنا ریکارڈ خراب نہیں کر سکتے۔ انسان شہرت مشکل سے حاصل کرتا ہے اب چند لوگوں کی خواہش پر ورلڈ کپ میں بھارت سے ہمیشہ ہارنے کی شہرت کھو تو نہیں سکتے۔
ویسے بھی لوگ بھول گئے کہ 92ء کا ورلڈ کپ ہم جیت گئے تھے ، مگر اس میں بھی ہم بھارت کے مقابلے میں شکست کھا گئے تھے۔ ہر مرتبہ اب یہی سوچ کے ہم ہارتے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید اس مرتبہ بھی ہم بھارت سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ جیت جائیں۔
ناقدین یہ کہتے ہیں کہ بابر اعظم، شاہین آفریدی اور شاداب خان پرفارم نہیں کر رہے۔ میرے خیال میں تو ان لوگوں کے گھر میں ٹی وی نہیں ہے یا پھر یہ لوگ اشتہارات نہیں دیکھتے۔ ٹی وی کمرشل میں ہمارے تمام سٹارز ایسا پرفارم کرتے ہیں کہ فہد مصطفیٰ بھی شرما جائے۔ کمال کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔
اب بتائیے کوئی اور بابر اعظم سے اچھا یہ بول سکتا ہے کہ پیپسی پہلے سے زیادہ سٹرانگ ہو گئی ہے۔ کمال کی ڈائیلاگ ڈیلیوری ہے۔ شاداب خان نے ایک اداکارہ کے ساتھ جو ایزی پیسہ کے مختلف ٹی وی کمرشل کیے ہیں، ان سب میں دیکھ لیں کہ کتنی زبردست پرفارمنس دی ہے کہ ساتھی اداکارہ بھی بے چاری جھینپ گئی ہو گی۔
اسی طرح کولا مشروب کے اشتہار میں جتنا زور بابر، شاہین اور شاداب نے لگایا ہے، کیا پھر وہ میچ میں بھی اتنا ہی زور لگائیں؟ یار دیکھیں یا تو ان سے ٹی وی کمرشل بنوا لیں یا پھر کرکٹ میں رنز یا ان سے ماڈلنگ کروا لیں یا پھر بیٹنگ، چوپڑیاں تے نالے دو دو؟ ممکن نہیں۔
وہ اور کرکٹرز ہوں گے جو کمرشل میں جان نہیں ڈالتے مگر کھیل میں زبردست ہوں گے۔ ہم تو ایسے نہیں ہیں، کھیل تو کھیل ہوتا ہے اس میں کیا سنجیدہ ہونا؟ سنجیدہ تو بندے کو سکرین پہ دکھائی دینا چاہیے کہ لوگوں کو محسوس ہی نہ ہو کہ آپ اداکاری کر رہے ہیں۔ کھیل میں کبھی ہار اور کبھی جیت ہوتی ہے، کبھی دشمن جیت جاتا ہے اور کبھی ہم ہار جاتے ہیں، اب آپ لوگ ہار کو دل پہ ہی لے لیتے ہیں۔
آپ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان ہیں، ان کا دل ہم کیسے توڑ سکتے ہیں؟ ویسے بھی پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے تو آپ سب نے سنا ہو گا۔ بس ہم وہ حق ہی ادا کر رہے ہیں تو کیا برا کر رہے ہیں؟
اس کے علاوہ دوسری بات یہ کہ دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ہماری شکست کی۔ دراصل بھارت میں جا کر ہمیں جو بریانی کھانے کو ملی، وہ اتنی مزیدار تھی کہ ہم پیٹ بھرتے رہے، اب بھرے پیٹ کے ساتھ کرکٹ تو نہیں ہو سکتی۔
پھر آپ کو معلوم ہے کہ بھارت میں شاپنگ بھی کرنا ہوتی ہے۔ اب بندہ کرکٹ کے چکر میں شاپنگ خراب کر لے تو گھر والے بہت مائنڈ کرتے ہیں۔ بنارسی ساڑھیاں، انڈین را سلک، ہلدی رام کی مٹھائیاں، دہلی کے چاندنی چوک کے فرائی کاجو،،، کیا کیا بتائیں؟
ڈھیروں ڈھیر آئٹمز کی لمبی چوڑی لسٹ ہوتی ہے۔ وڑا پاؤ، پاؤ بھاجی، بھیل پوری، پانی پوری نہ کھائی تو بھارت جا نا ہی بے کار ہوتا ہے۔ باقی کبھی وقت ملتا ہے تو کرکٹ بھی کھیل ہی لیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تمام تنقید صرف کھلاڑیوں پر ہی کیوں کی جائے؟ پہلی تنقید کرنا ہے تو پھر سلیکشن کمیٹی پر کریں۔ بس ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر اچھا کھلاڑی اچھا سلیکٹر بھی ہو سکتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
سلیکٹر ہونے کے لیے بڑا کرکٹر ہونا ضروری نہیں۔ یہ لوگ جو بڑے کرکٹر ہوتے ہیں یہ اپنے سے بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کام کے لیے ایسی سلیکشن کرتے ہیں کہ کارکردگی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہوتی جاتی ہے۔ ٹیم سلیکشن کے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ اگر کوئی کرکٹر زخمی ہو گیا تو اس کی جگہ کون لے گا؟
نسیم شاہ ان فٹ ہوا تو ہمارے پاس اس کا متبادل بالر نہیں تھا۔ پھر کرکٹ بورڈ کی ناک بھی اونچی ہے کہ محمد عامر کو واپس ٹیم میں لانے سے ناک نیچی ہو سکتی تھی اس لیے اسے نہیں لائے۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ کے ناموں سے کسی کے پیٹ میں درد ہوتا ہو گا مگر عماد وسیم نے کیا بگاڑا ہے؟
ابرار احمد جیسا سپنر شاید ٹیم میں جگہ اس لیے نہیں بنا پایا کہ اس کا کوئی رشتے دار پی سی بی سے وابستہ نہیں اور پھر سب سے زیادہ تنقید کرنے کا حق ہے تو پی سی بی کے سربراہ پر کیجئے۔ ہمیں تو یہ نہیں سمجھ آتی ہے کہ پی سی بی کا چیئرمین کیا سوچ کر بنایا جاتا ہے۔
اچھا اینکر ہونا اور اچھا چیئرمین کرکٹ بورڈ ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ شوگر ملز چلانا اور پی سی بی چلانا دو مختلف باتیں ہیں۔ باتیں بہت سی ہیں مگر ان سب میں اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ابھی صرف تین میچ ہوئے ہیں اور ان میں سے دو ہم نے جیتے ہیں۔ اس لیے حوصلہ کیجئے۔
ابھی رکو ذرا، ذرا رکو تو سہی۔ باقی میچ بھی ہیں دل لگا کر میچ دیکھیے۔ امید کا دامن مت چھوڑیں اور یاد رکھیں کسی بہت ہی سیانے آدمی نے پہلے ہی قوم کو اس بات پر پکا کیا ہوا ہے کہ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage