شکریہ پاک فوج ،شکریہ جنرل عاصم منیر
Image

تحریر: غزالہ نورین

میں نے اپنے خیالات کو ترتیب دیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس( سابق ٹویٹر) پر اپنے اکاؤنٹ میں تحریر کیا۔ دو چار مزید اکاؤنٹس کی تحریریں پڑھیں اور جیسے ہی موبائل رکھنے لگی ، ڈی ایم ( ڈائریکٹ میسج) کی بیل بجی ، عموماً میں ڈی ایم نہیں دیکھتی اور جواب تو انتہائی کم دیتی ہوں لیکن یہ ایک ایسی خاتون کی جانب سے تھا جنہوں نے کچھ دیر عرصہ قبل ہی ڈی جی آئی ایس پی آر سے میرے کئے گئے سوال ( جو کہ ایک سیاسی جماعت کے فوج مخالف بیانیہ سے متعلق تھا ) کے لیے مجھے بہت ساری تعریف کے ساتھ ڈھیروں دعائیں دی تھیں ۔

اسی تعریف اور دعاؤں کے لالچ میں ، میں نے ڈی ایم کھول کے میسج پڑھ لیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میری کچھ دیر پہلے کی گئی ٹویٹ کے حوالے سے خفگی ، غصہ اور حقارت پر مبنی الفاظ کا ایک طوفان موجود تھا ۔

ٹھہریں ، شاید آپ کومیری بات سمجھ نہ آئے تو میں آپکو بتاتی چلوں کہ میرا یہ پیغام اور ٹویٹ پیٹرول کی قیمت میں 40 روپے کی بڑی کمی کی خبر اور اس کمی کے روحِ رواں یعنی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور پاک فوج کے شکریہ کا تھا ۔

اس حقیقت کے ادراک اور اعتراف کے ساتھ کہ اتنی بڑی کمی لانا نگران حکومت تو کیا منتخب حکومتوں کی بس کی بھی بات نہیں ہوتی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اتنی بڑی کمی کے ذریعے عوام کو ریلیف آرمی چیف کی ذاتی کوششوں اور دلچسپی کے بغیر یقیناً ممکن نہیں ہوتا ۔

بہرحال میں نے اس ڈی ایم کا جواب دینا تو بالکل بھی مناسب نہیں سمجھا لیکن اس تحریر کے ذریعے کوشش کروں گی کہ اس شکریہ کی وجوہات آپ کے سامنے لا سکوں ( جو میرے آج کے کالم کا عنوان بھی ہے )۔ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں، چند ہی ماہ قبل ملکی معاشی اور سیاسی ابتر صورتحال کے باعث مایوسی کے تاریک بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر روز بڑھتی مہنگائی ، ریکارڈ بلندیوں پر پہنچتا ڈالر اور آسمان کو چھوتی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستانیوں کا دن کا سکون اور راتوں کی نیندیں حرام کر رہی تھیں ۔

جب جون کے مہینے میں خبر سنی کہ حکومت نے ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے تناظر میں، ایک منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ کلیدی شعبوں جیسے کہ دفاعی پیداوار، زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات،کان کنی، آئی ٹی اور توانائی میں غیر استعمال شدہ صلاحیت کو  دوست ممالک کے تعاون سی مقامی طور پر استعمال کیا جا سکے۔

ایسے منصوبے ماضی میں بھی بنتے رہے اور بیشتر ابتداء میں ہی ناکامی کا شکار ہوئے۔ بہرحال اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کا نام دیا گیا۔

حکومت کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کو اس اعلیٰ کمیٹی میں شامل ہونے کی خصوصی دعوت دی گئی ۔ سویلین اور فوجی قیادت دونوں کی مہارت اور وسائل کو یکجا کرکے، SIFC کا مقصد سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ایک مضبوط قوت کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کرنا تھا ۔

کونسل نے قیام کے بعد لائحہ عمل ترتیب دیا اور سب سے پہلے فیصلہ کیا گیا کہ اسمگلرز ، ذخیرہ اندوزوں ، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں ، اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے۔ ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہوئے اور ہر سطح پر جا کر کارروائیوں میں ایسے افراد کو گرفتار کیا۔

اس کے ساتھ ہی کئی نئے منصوبوں کا آغاز عمل میں لایا گیا ۔ 9 ملین ہیکٹر سے زائد کی غیر آباد جگہ پر زراعت کے لئے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹمز سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ملکی چاول کی برآمدات کا تخمینہ 3 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ معاشی سال 2023 ء اور 24 ء میں حکومت نے کپاس کی 12.7 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف رکھا جو باآسانی حاصل کیے جانےکی تو قع ہے۔ ایس آئی ایف سی کے تحت جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے 2250 ایکڑ زمین پر خانیوال فارمز قائم کیا گیا۔

مزید براں 7 جون 2023 ء کو پہلی مرتبہ این ایل سی نے بذریعہ افغانستان 4 ہزار کلومیٹر طویل زمینی راستے کو استعمال کرتے ہوئے برآمدی اشیاء ازبکستان سے قازقستان پہنچائیں۔ اسی طرح زوجیان چنگ چی گروپ نے پاکستان میں پہلا الیکڑیکل وہیکل گروپ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان نے ایس آئی ایف سی کے تحت خلیج اور دیگر ریاستوں سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے 20 منصوبوں کی منظوری دی ہے۔جن منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ان میں سعودی آرامکو ریفائنری، تاپی گیس پائپ لائن، تھر کول ریل کنیکٹیویٹی، گلگت بلتستان میں 245 میگاواٹ کے پن بجلی کے منصوبے، 85000 ایکڑ اراضی کو ایک ہی سرمایہ کار کے حوالے کرنا، کلاؤڈ انفراسٹرکچر کا قیام اور ٹیلی کام انفراسٹرکچر کا قیام شامل ہے۔

اگرچہ یہ سب طویل مدتی منصوبے ہیں اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ، حکومتی اخراجات اور آئندہ سال متوقع انتخابات ان میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں لیکن اگر تمام منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ بندی اور عزم مصمم کے ساتھ مکمل کرنے کی لگن ہو تو یہ یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۔

اور یہی وہ وجوہات ہیں اس شکریے کی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ۔سابقہ چار سویلین حکومتیں اس طرح کے اقدامات کرنے اور ایسا ریلیف دینے میں ناکام رہیں اور اب بالاخر پاکستان اپنے مسائل کے حل کی راہ پر چل پڑا ہے تو ہمیں نا صرف یہ کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ، پاک فوج اور ہر اس ادارے یا فرد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی بلکہ اس امید کا اظہار بھی کرنا چاہیے کہ اشیائےخورونوش کی قیمتوں میں کمی ، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی ، بجلی و گیس کی قیمت میں کمی جیسی خوشخبریاں بھی جلد ملیں گی ، انشاء اللہ۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage