ججوں کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف ایکشن
Image

اسلام آباد:(سنونیوز)ججوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کے خلاف ایکشن ۔وفاقی حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ٹیم کے سربراہ ایف آئی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہو ں گے۔ ٹیم جج صاحبان کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد اپ لوڈ کرنے والوں کی نشاندہی کر گی۔

سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم چلانے والوں کا چالان ہو گامتعلقہ عدالتوں میں مقدمات چلیں گے۔جے آئی ٹی پندرہ دن میں وزارت داخلہ کو پیش رفت رپورٹ پیش کرے گی ،جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی، پولیس اور پی ٹی اے کے نمائندے شامل ہونگے۔

اس سے قبل بھی جج صاحبان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا سلسلہ دیکھنے کو ملا،سال 2023 میں جسٹس عامر فاروق کے خلاف سوشل میڈیا مہم لانچ کی گئی جس پر وزارت قانون نے بھی جسٹس عامر فاروق کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی شدید مذمت کی تھی۔

وزارت قانون نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں ریاستی اداروں پر حملے سے گریز کریں۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسویس ایشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کیخلاف مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسویس ایشن نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف مہم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ذمے داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا تھا کہ چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف چلنے والی مہم کی مذمت کرتے ہیں، وہ غیر جانبدار اور دیانت دار جج ہیں۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس عامر فاروق اپنی اصول پسندی کی وجہ سے مشہور ہیں، ان کے خلاف منفی مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/15/01/2024/pakistan/64695/

گذشتہ دنوں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج پورے انسٹی ٹیوشن کی ساکھ تباہ کرے اور پھر استعفیٰ دیدے،اور ہم اس کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کریں۔

تفصیل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے زیر صدارت سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف کارروائی کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی شروعات میںاٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سابق جج مظاہر سید مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہااگر کوئی جج استعفیٰ دیدے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے قوانین کے مطابق اس کیخلاف مزید کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن معزز جج جسٹس امیر بھٹی نے اس موقع پر آئین کے آرٹیکل 209(3) کی نشاندہی کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ آئین کے مطابق کوئی ممبر موجود نہ ہو تو اس کے بعد سینئر ترین جج کونسل کاممبر ہوگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کارروائی میں بیٹھنا نہیں چاہتے، ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا ہم چار اراکین اس کارروائی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آرٹیکل 209 کے تحت ایک رکن کی غیر موجودگی میں سینئر ترین دستیاب جج موجود ہوتا ہے، کارروائی کو اس وقت آگے بڑھائیں گے، اگر جسٹس منصور علی شاہ دستیاب ہوئے ۔ بعد ازاں سپریم جوڈیشل اجلاس میں مختصر وقفہ کیا گیا،اس کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ کارروائی میں شریک ہوگئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا معاملہ ختم ہو گیا؟ اٹارنی جنرل معاونت کریں ۔ یہ استعفیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی شروعات میں نہیں دیا گیا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا گیا ہے۔

انہوںنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عین ممکن ہے جج نے دباؤ پر استعفیٰ دیا ہو اور درخواستیں غلط ہوں۔ جج کےپریشر میں آکرمستعفی ہونے سے ہمارے ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔ استعفیٰ دینا کسی جج کا ذاتی فیصلہ ہے۔ جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی یقینی طور پر تو ختم ہو گئی،۔