اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خون کی پیاسی ہوگئی
11/16/2023 4:21
غزہ: (سنو نیوز) اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کے خون کی پیاسی ہوگئی۔ سکولز، ہسپتالوں اور رہائشی عمارتوں پر بمباری سے شہداء کی مجموعی تعداد 11 ہزار 500 ہوگئی۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ شہر میں الشفاء میڈیکل کمپلیکس پر دھاوا بولنے اور تلاشی لینے کے بعد اسرائیلی فوج اب غزہ کی پٹی کے اس سب سے بڑے ہسپتال سے نکل کر پیچھے ہٹ گئی ہے۔ تاہم صہیونی فوج نے ہسپتال کا محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ہسپتال کے آس پاس تقریباً 15 ٹینک تھے جو کمپلیکس میں داخل ہونے کے بعد پیچھے ہٹ رہے تھے۔ فوج نے اس جگہ پر موجود سرجیکل عمارت کے تہہ خانے کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اسرائیلی فوج نے ہسپتال میں موجود اہم تنصیبات اور طبی آلات کو دھماکے سے اڑا دیا۔ تاہم فوج کسی بھی مطلوب شخص کو تلاش کئے بغیر ہسپتال سے نکل گئی۔
حماس نے الشفا میں ہتھیاروں کی موجودگی کے اسرائیلی الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں جھوٹ اور سستا پروپیگنڈہ قرار دے دیا۔ اسرائیل نے حماس کے افراد کے ہسپتالوں کے نیچے زیر زمین مقامات پر موجود ہونے کا الزام لگایا تھا۔ حماس نے اس کی تردید کردی اور کہا کہ اسرائیل ایسے الزامات جنگی جرائم کے ارتکاب کے جواز کے لیے لگا رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کا الشفا ہسپتال پر دھاوا
حماس نے مزید کہا قابض اسرائیل جگہ جگہ ہتھیار رکھ رہا ہے اور ایک کمزور فسانہ بنا رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کرکے وہ اب کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں۔ دو ہفتے قبل بھی ہمارا مطالبہ تھا کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں سے ہسپتالوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اسرائیلی بیانیہ کے جھوٹ کا تعین کریں کیونکہ ہم اسرائیل کے دھوکہ دہی سے واقف ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے غزہ کی پٹی میں الشفاء ہسپتال کے ارد گرد اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کی منظوری نہیں دی، امریکہ اسرائیل کے دوسرے فوجی فیصلوں کے حوالے سے بھی اسی طرز عمل کی پیروی کر رہا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہم ہمیشہ اپنے اسرائیلی شراکت داروں کے ساتھ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کی اہمیت کے بارے میں بہت واضح رہے ہیں، ہم نے واضح طور پر اسرائیل سے کہا ہے کہ ہسپتالوں کے بارے میں خاص طور پر محتاط رہنا چاہیے۔
ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے کے لیے قرارداد منظور کی ہے تاکہ زخمی اور محصور شہریوں تک امداد پہنچائی جا سکے۔ سلامتی کونسل میں مالٹا کی جانب سے قرارداد کا پیش کیا گیا مسودہ منظور کر لیا گیا۔
سلامتی کونسل کے 15 میں سے 12 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکہ، برطانیہ اور روس نے گنتی میں حصہ نہیں لیا۔ منظور کی گئی قرارداد کے مسودے کے ہر پیراگراف میں غزہ کے عام شہریوں خاص طور پر بچوں کا ذکر ہے۔
قرارداد میں حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ تمام اطراف سے غزہ کے محصور شہریوں تک امداد کے پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے لیے کہا گیا ہے۔ قرارداد یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کی تلاش اور بحالی کی کوششیں فوری طور پر شروع کی جائیں۔ قرارداد میں کونسل نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو بھی مسترد کر دیا۔
ووٹنگ سے قبل روس کے نمائندے ویسیلی نیبنزیا نے قرارداد میں ایک ترمیم کی تجویز پیش کی جس میں ’فوری، پائیدار اور انسانی ہمدردی کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دشمنی کا خاتمہ ہو۔‘
روسی نمائندے کی تجویز کو سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ متحدہ عرب امارات سمیت صرف پانچ ارکان نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ نو ارکان نے ترمیم کی تجویز والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
امریکہ اور روس دونوں نے ایک دوسرے پر غزہ کے تنازعے سے متعلق کارروائی پر اتفاق رائے کی کوششوں کو روکنے کا الزام لگایا ہے۔
سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار اقوام متحدہ کا ادارہ ہے۔ کونسل غزہ کے حوالے سے گذشتہ چار مسودہ قراردادوں کو منظور کرنے میں ناکام رہی جس سے اراکین کے درمیان تلخ تقسیم واضح ہوتی ہے۔
امریکہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی ہر اُس قرارداد کو مسترد کرتا آیا ہے جس میں اس امریکی مؤقف کا اعادہ نہیں ہوتا کہ ’اسرائیل کے اپنے دفاع کا حق‘ حاصل ہے اور اسی طرح جو قرارداد حماس کے اقدامات کی غیر واضح طور پر مذمت نہیں کرتی۔
ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی مستقل نمائندہ لانا نسیبہ نے متنبہ کیا کہ بیرونی دنیا کے لیے سلامتی کونسل ’قتل عام سے لاتعلق اور مصائب کو نظرانداز کرتی نظر آتی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’مالٹا کی اس قراراد میں بچوں کا تحفظ وہ شمالی ستارہ ہے جو کونسل کی راہنمائی کر رہا ہے۔‘
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage