سپریم کورٹ: سرکاری افسران کیلئے “صاحب” کے لفظ کے استعمال پر پابندی
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے “صاحب” کے لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ عدالت نے کہا کہ صاحب کے لفظ کا استعمال کسی آزاد قوم کی عکاسی نہیں کرتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مردان میں 9 سالہ بچے کے قتل کے ملزم کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ملزم کیخلاف کیا شواہد ہیں؟ جس پر ڈی ایس پی انویسٹی گیشن پشاور نے بتایا کہ دو گواہان نے ملزم کیساتھ بچے کو جاتے ہوئے دیکھا۔
دو بہنوں کو 42 سال بعد جائیداد میں حصہ مل گیا
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ گواہ تو آپ چار بھی ڈال سکتے تھے شواہد کہاں ہیں ؟ جس پر ڈی ایس پی نے کہا کہ بچہ اپنے چچا کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی چچا اپنے بھتیجے کو کسی غیر کیساتھ کیسے جانے دے سکتا ہے ؟ ورکشاپ والوں نے بچے کے اہلخانہ کو 16 دن بعد کیوں آگاہ کیا ؟ پولیس نے ورکشاپ ملازمین کے بیانات کیوں نہیں ریکارڈ کیے ؟ سب سے ناقص تفتیش کے پی پولیس کی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے کی کاپی آئی جی کے پی، ایڈووکیٹ جنرل کے پی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی جائے، پولیس نے بچہ مرنے کے ذمہ داران کے تعین کیلئے کوئی تفتیش نہیں کی، ناقص تفتیش کی مثال دینے کیلئے یہ بہترین کیس ہے۔
کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر سے معلومات لینے پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت کو اپنا دفتر سمجھ رکھا ہے ؟ دفتر کے کام عدالت میں کرنا غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے مردان میں 9 سالہ بچے کے قتل کے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران ڈی ایس پی کے ساتھ “صاحب” کا لفظ استعمال کیا گیا، صاحب کے لفظ کا استعمال کسی آزاد قوم کی عکاسی نہیں کرتا، سرکاری ملازم صاحب کے لفظ سے خود کو احتساب سے بالا تصور کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ملزم جاوید خان پر 9 سالہ حمزہ کے قتل کا مقدمہ پشاور میں درج تھا۔