نظم کجھ چر بعد دوبارہ ساہمنے آئے گی!!!
Image

تحریر: غلام حسن فرید (پی ایچ ڈی اردو سکالر)

اپنی تراش خراش کرتے جب آدم زاد آنکھوں میں صدیوں کی روداد لیے اس عہد میں داخل ہوتا ہے تو پیچھے مڑ کر دیکھنے سے سایہ بھی نہیں ملتا۔ خود کو اس کائنات کی ایک اکائی خیال کرنا اور پھر اس سوچ کو اپنے اعصاب پر سوار کرنا اتنا آسان نہیں مگر کیا ہے کہ ہر جستجو کے آگے ہمیں خود کو ان کیمیائی تبدیلیوں کی نظر کرنا پڑتا ہے جس کا جواز ڈھونڈنے کی سعی پر بھی ہمیں کہیں خود زہر پینا پڑتا ہے اور کہیں اپنے ہی کہے پر اپنے ہاتھوں سے بنائی عمارتوں میں بڑی پگڑیوں والے چوکیداروں سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔

اسی تگ ودو میں ہماری کہانیاں اگلی نسلیں ہماری قبروں پر بیٹھ کر سناتی ہیں۔ حملہ آوروں کی باقیات کہیں نہ کہیں ان کہانیوں کو بھی اتنا آلودہ کر دیتی ہیں کہ جاگنے کی بجائے یہ کہانیاں ہمیں پھر سلا دیتی ہیں تاہم کتنی دیر تک سویا جا سکتا ہے۔پنجاب کی تاریخ ایسے کئی کارناموں سے بھری پڑی ہے جہاں کہانی سنتے سنتے اصل نابر خود ہی سامنے آجاتا ہے۔

ہمیں حالیہ سیاسی منظر نامے سے کیالینا دینا ۔ شہروں کو شہزادوں کے نام سے منسوب کرنے کی روایت نے ایک دن یہی گالی ہمیں دینی تھی۔ گالی کے ردِعمل میں کئی شکلیں آنکھ کے پردے پرالفاظ کے ساتھ ابھریں۔ ہمیں پہلے کیوں نہیں یاد آتا، یہ معاملہ صرف سیاسی نہیں زندگی کے ہر پہلو سے یہی عذاب اس دھرتی پر مسلط ہے۔ ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ نصاب کھول کر خود کو اس میں تلاش کرتے کرتے گم ہو ئے کاغذوں پر اپنے قد کے مطابق رداس اور قطر کو جنم دیا اور پھر اس سے باہر سب کچھ اچھوت ! ہماری دھرتی کے ادیب کا بھی یہی حال ہے۔

صوفیا کی سرزمین پر لوگوں کی معاشرتی اقدار کو کیسے بیڑیوں سے جکڑا گیا یہ کہانی کسی اگلے وقت پر!ہم تو آج کے عہد کی بات کرتے ہیں جہاں دیو مالا کہانیوں سے اصل کردار نکالنے والے ادیب کو اس کی زندگی میں تو نکیل نہ ڈالی جا سکی تاہم اس کے ظاہری پردے کے بعد تخت سے وابستہ خلیفےہر طرح کی ہرزہ سرائی کرتے رہے۔ کیا یہ دھرتی اسی سیاسی گالی کی متّقاضی تھی۔ اس کا جواب دھرتی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے شاید کوئی بھی ہاں نہیں دے گا اور دے بھی کیوں؟ مگر ہم اپنے اصل سپوتوں کو ماننے سے جب تک انکاری رہیں گے تب تک یہ ہوتا رہے گا۔ ادب کسی بھی دھرتی کی تاریخ ہوتی ہے تاہم خاص جتھا بند گروہ ہمیشہ پنجاب کی تاریخ پر حملہ آور ہوتا رہا۔ ایسے میں یہ دھرتی بانجھ کیسے رہ سکتی تھی۔دھرتی اپنے سپوت علی ارشد میرؔ کی طرح وقت کو للکارتی ہے۔

مٹی صدیاں دی متھے تے

اکھ وچ لشکن رنگ

لنگھ اوئے سمیا لنگھ

صوفیا کی سرزمین پنجاب اور اس کے اپنے رنگ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل  میں سامنے رہتےہیں۔ کسی حملہ آور کے قصیدے پڑھنے کی بجائے یہاں کے نابر ادیب نے اپنی کھوج سے اصل کرداروں کی کہانی بیان کی ہے۔ خود کو دنیا کی قدیم تہذیب کے دھانے پر کھڑا ہو کر دیکھنا کیسا ہے؟ ہماری ثقافتی روداد کون سنائے گا؟ماں بولی کی اہمیت کو کون جھٹلائے گا؟ ہم جو بقول علی اشرف شہید

ساڈے اکھر گھوڑے لوبھ دے

بادشاہاں دے وس

یہ وہ تاریخی اشارے ہیں جو آج کانابر  ادیب سرسوتی کے ساتھ مکالمہ  کرتے ہوئے دہراتا ہے۔ کسی بھی نابر کی عظمت کے معترف نہ ہونے کی روایت نے ہمیں اس چوپال میں کھڑا کر دیا ہے جہاں ہم ان مؤرخوں اور کویوں کے ہاتھ بھی نہیں کاٹ سکتے جنہیں سرمایہ دار اور سامراجی نظام نے ہمارے فکری پیشرو بنایا ۔ اپنی گود میں مؤرخوں کو بٹھا کر تقابلی جائزہ لکھوانے والے ادیب اس لذتِ سفال سے محروم ہی رہیں گے جس کا ذائقہ زبان سے آنکھ کا سفر طے کرتا ہے۔

صوفیا کے پروان چڑھائے ادب کو بھی جیبوں کو پیسوں سے بھر کر رنگنے کی کوشش کی گئی۔ ادب وہ کہ جس کے نام پر ادارے بنائے گئے مگر یہ ادارے اپنی صدیوں کی بھوک مٹانے والوں کی گرفت میں آ گئے۔ کون سی زبان، کون سی ثقافت اور کہاں کا ادیب؟ ایک ہونے کی بات کرنا بھی یہاں کمزوری کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں ایسے دور میں اپنی اصل تک پہنچنے کے لیے علی ارشد میرؔ جیسے سپوت کی شاعری سے استفادہ کرنا ہو گا۔ وہ کردار جو بھلا دئیے گئے تھے ایک سیاسی دھمکی، گالی نے دوبارہ سامنے لا کھڑے کیے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پنجابی زبان و ادب کا عظیم سپوت علی ارشد میرؔخود کو نظم بنا کر دھرتی کے سپوت کو بیان کرتے ہوئے سچ ہی کہتا ہے کہ

نظم کجھ چر بعد دوبارہ ساہمنے آئے گی!!!

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage