نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ اور اختلافی نوٹ جاری
Image

اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔اس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ کا دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نیب ترامیم کیس کے اکثریتی تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق کی گئی ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ عوامی عہدوں رکھنے والوں کے حوالے سے نیب قانون پر لگائی حد اور 50 کروڑ کی حد ترامیم کو کالعدم کیا جاتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دیدی گئی ہے۔اس کے علاوہ پہلی ترمیم کا سیکشن 8 بھی کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف دائر ریفرنسز کیلئے سیکشن 9 اے فائیو میں کی گئی ترمیم برقرار رہے گی۔

نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کی کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا۔ عدالتی فیصلے میں این آر او کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سال 2007 ء میں این آر او کے ذریعے عوامی نمائندوں کیخلاف کیسز اور تحقیقات ختم کی گئی تھیں۔

فیصلے میں کہاگیا ہے کہ این آر او کیس میں بھی عدالت کا موقف تھا کہ کیسز عدلیہ ہی ختم کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں رہنا یا نہ رہنا سیاسی فیصلہ ہے۔ عدالت سیاسی جماعتوں کے سیاسی فیصلوں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کے مقدمات میں حق دعویٰ نہ ہونے کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست اس بنیاد پر مسترد کرنا غیر متعلقہ ہے کہ ترامیم کی پارلیمنٹ میں مخالفت نہیں کی گئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں نیب ترامیم آرڈیننس کے ذریعے کی گئیں۔ آرڈیننسز کی مدت پوری ہوچکی اب اُن ترامیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔

دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اکثریت کا فیصلہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی اسکیم کیخلاف ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ اکثریتی فیصلہ اختیارات کے "ٹرائیکوٹومی" کے اصول کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ سے سیاسی بحث کو سپریم کورٹ منتقل کرنے کے ایک رکن پارلیمنٹ کے غیر آئینی مقصد کا شکار ہوا۔ نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کر سکتی ہے۔ کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا۔ گذشتہ رات مجھے اکثریتی فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ وقت کی کمی کے باعث فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کر رہا۔

یہ بھی پڑھیں :سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دیں

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی ہیں۔ عدالت نے نیب اور احتساب عدالتوں کی جانب سے ترامیم کے بعد دیئے گئے فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے، آرٹیکل 9، 14، 24 کے تحت درخواستیں قابل سماعت ہیں، عوامی عہدہ رکھنے والے سیاستدانوں کیخلاف ریفرنسز بحال کئے جاتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ نیب اور احتساب عدالتوں سے جاری کردہ تمام فیصلے کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں، ختم ہوئے نیب ریفرنسز کو اسی دن سے بحال کرتے ہیں جب سے ترامیم آئیں، تمام ریفرنسز کا مکمل ریکارڈ سات دنوں کے اندر احتساب عدالتوں کو بھجوایا جائے، کرپشن سے جب عوامی فلاح کے لئے مختص پیسہ کہیں اور خرچ کیا جاتا ہے تو بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوتے ہیں۔

واضح رہے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

خیال رہے جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کر دی گئی۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔

بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

26جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔