سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دیں
Image
اسلام آباد: (سنو نیوز) سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دیں۔ عدالت نے نیب اور احتساب عدالتوں کی جانب سے ترامیم کے بعد دیئے گئے فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے، آرٹیکل 9، 14، 24 کے تحت درخواستیں قابل سماعت ہیں، عوامی عہدہ رکھنے والے سیاستدانوں کیخلاف ریفرنسز بحال کئے جاتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ نیب اور احتساب عدالتوں سے جاری کردہ تمام فیصلے کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں، ختم ہوئے نیب ریفرنسز کو اسی دن سے بحال کرتے ہیں جب سے ترامیم آٸیں، تمام ریفرنسز کا مکمل ریکارڈ سات دنوں کے اندر احتساب عدالتوں کو بھجوایا جائے، کرپشن سے جب عوامی فلاح کے لئے مختص پیسہ کہیں اور خرچ کیا جاتا ہے تو بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شای نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمان کا ہے، پارلیمنٹ چاہئے تو خود اس قانون کو تبدیل کرسکتی ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس بحال ہوگیا۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف پیرا گون ہاوسنگ ریفرنس بحال ہوگیا۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف بھی نیب کیس بحال ہوا۔ نیب بلوچستان وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کر رہا تھا۔ نیب قانون میں تبدیلی کے بعد نیب نے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف کیس بند کر دیا تھا۔ کن سیاستدانوں کے کیسز ختم ہوئے؟ نیب ترمیمی ایکٹ کالعدم قرار دینے پر سیاستدانوں کے نیب کو واپس کیسز ٹرائل کے لیے دوبارہ احتساب عدالت کو بھجوائے جائیں گے۔ ملک بھر کی احتساب عدالتوں نے عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر 100 سے زائد کیسز نیب کو واپس بھجوا دیئے تھے۔ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس واپس ہوا، احتساب عدالت نے عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کا ریفرنس نیب کو واپس بھجوا دیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنسز بھی نیب کو واپس کیے گئے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس بھی نیب کو واپس بھجوایا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف 6 رینٹل پاور ریفرنسز نیب کو واپس ہو گئے تھے۔ سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ فنڈز میں مبینہ خرد برد کا ریفرنس بھی نیب کو واپس کیا گیا تھا۔ احتساب عدالتوں نے ملزمان کو بری نہیں کیا بلکہ ریفرنسز نیب کو واپس بھجواتے ہوئے متعلقہ فورم سے رجوع کی ہدایت کی تھی۔ واپس بھجوائے گئے ریفرنسز میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، فریال تالپور، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، نور عالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری، برجیس طاہر، نواب علی وسان، شرجیل انعام میمن، لیاقت جتوئی، امیر مقام، گورم بگٹی، جعفر خان مندوخیل، گورنر جی بی سید مہدی شاہ کے نام شامل ہیں۔ واضح رہے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ خیال رہے جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کر دی گئی۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔ بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

404 - Page not found

The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.

Go To Homepage