سعودی عرب اور ایران کا اہم معاہدہ، دنیا پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟
Image

مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے۔ سات سال قبل دونوں ممالک نے ایک بڑے تنازع کے بعد اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ چین میں سعودی عرب اور ایران کے حکام کے درمیان چار روزہ مذاکرات کے بعد دونوں نے سفارتی تعلقات کی بحالی کا غیر متوقع اعلان کیا۔

2016ء میں سعودی عرب میں معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین نے ریاض میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ اس کے بعد سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرنے والے دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں۔ اس مقابلے میں دونوں ممالک لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں حریف دھڑوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

ایران نے یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کی۔ اس کے بعد باغیوں نے 2014 ء میں سعودی نواز حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ اور سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف شدید فضائی حملے شروع کر دیے۔ سعودی عرب مسلسل الزام لگاتا رہا ہے کہ حوثی باغی ایران کی مدد سے اس پر حملے کر رہے ہیں۔

سعودی عرب جن حملوں کی بات کر رہا ہے، ان میں سب سے سنگین حملہ 2019ء میں اس کی بڑی تیل تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملے تھے۔ اس حملے میں ان آئل پلانٹس کو شدید نقصان پہنچا تھا اور اس کی وجہ سے سعودی پیداوار متاثر ہوئی تھی۔

سعودی عرب نے اس حملے کا الزام ایران پر عائد کیا تھا لیکن ایران نے کہا کہ اس میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔گذشتہ سات سالوں کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے تک پہنچنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ لیکن گذشتہ جمعہ کو دونوں ملکوں کا بیان بہت اہم ہے۔

دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے اپنے سفارت خانے کھول دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کاروباری اور سیکورٹی تعلقات کو دوبارہ قائم کریں گے۔ امریکہ نے اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے لیکن احتیاط کا اظہار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا، "بائیڈن انتظامیہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتی ہے۔"انہوں نے کہا کہ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ اس معاہدے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔"

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کی ثالثی پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان کے ترجمان نے کہا، "گوٹیرس نے کہا ہے کہ وہ خلیجی خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے تیار ہیں۔"

اسرائیلی حکومت نے ابھی تک اس معاہدے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے ۔ ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اسرائیل اس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کا حامی رہا ہے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔ دونوں کے درمیان تاریخی طور پر گہرا عدم اعتماد رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں۔

سعودی عرب نے یمن میں جلاوطن حکومت کی حمایت کی ہے اور ایران نے حوثی باغیوں کی حمایت کی ہے۔ نا صرف یمن بلکہ لبنان، شام اور عراق جیسے ممالک میں بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے دیکھے گئے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب 2015 ء میں اس وقت آمنے سامنے تھے ، جب مکہ میں حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے 139 ایرانی زائرین ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران نے سعودی عرب کی حکومت پر بے حسی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائے گا۔

سعودی عرب میں 2016 ء میں ممتاز شیعہ عالم نمر النمر سمیت 47 افراد کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ اس کے بعد مظاہرین تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں گھس گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے جس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں، جس کے بعد دونوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کاغذ پر کیا گیا یہ معاہدہ زمینی سطح تک کہاں تک پہنچ پاتا ہے۔

اس معاملے میں چین کا عمل دخل بہت دلچسپ ہے۔ یہ معاہدہ چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی کی ثالثی میں کیا گیا ہے۔ اسے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تاہم خلیجی خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کو خطے میں امریکہ کی گرتی ہوئی دلچسپی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن سعودی عرب اور خطے کے کچھ دوسرے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے اکیلے امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے۔

اس خطے کے ممالک نے دیکھا ہے کہ کس طرح امریکہ نے مصر کی حسنی مبارک کی حکومت کو عرب بہار کے دوران اپنا دفاع کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ عرب ممالک نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح روس نے شام کی اسد حکومت کی حمایت کی، جب کہ ان کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات بھی تھے۔

اس کے علاوہ جب سابق امریکی صدر براک اوباما نے امریکی خارجہ پالیسی میں مشرقی خطے اور ایشیا پیسیفک خطے کو اہمیت دینے کا اعلان کیا تو عرب ممالک نے محسوس کیا کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے امریکہ پر مزید اعتماد نہیں کر سکتے۔

حالانکہ امریکہ اب بھی وہ ملک ہے جو سعودی عرب کی سلامتی کا ضامن ہے اور ہتھیاروں کے معاملے میں اس کا اہم سپلائر بھی ہے۔ لیکن اب عرب ممالک اپنے سفارتی تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم چین کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کو نہ توڑنا خلیج کے دونوں ممالک کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔