پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا
Image

اسلام آباد: (سنو نیوز) بڑی عدالت کا بڑا فیصلہ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا، پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنا تے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن 2021 ء سے پی ٹی آئی کو انتخابات کرانے کا کہتا رہا لیکن سیاسی جماعت نے اس کے آئین کے مطابق انتخابات نہیں کرائے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کیخلاف اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا، ہمیں تاریخ کا ادراک ہے، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے، ہمیں اچھی طرح علم ہے۔ ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔ حامد خان نے ایک دن اور بڑھانے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دلائل مکمل کریں آج ہی فیصلہ کردیں گے۔

تفصیل کے مطابق پشاورہائیکورٹ کےفیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جب بدنیتی کی بات کرتے ہیں توبتائیں بدنیتی کہاں ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالے گی؟ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے۔ کم ازکم اتنا تو نظر آئے کہ الیکشن ہوئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی جسٹس مسرت ہلالہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکلا حامد خان اوربیرسٹر علی ظفر جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

کیس کی سماعت کی شروعات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے۔ اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے، ہم نے فیصلہ پڑھا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹس جمع کرانے کا آخری روز ہے،ٹائم کی قلت ہے اس لیے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے، کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر 2023ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔26 دسمبر کو پشاور ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ معطل کردیا تھا۔بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے اس حکم امتناع کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

3 جنوری 2023ء کو"بلے" کے انتخابی نشان کی بحالی کےکیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، اس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔لیکن 10 جنوری کو پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو "بلے‘"کے نشان پر عام انتخابات لڑنے کی اجازت دیدی تھی،اس کے بعد الیکشن کمیشن نے اسکے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 25 کے مطابق پی ٹی آئی سے امتیازی سلوک کیا۔ الیکشن کمیشن آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے۔ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا۔ اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے۔ پی ٹی آئی ایک نجی سیاسی جماعت ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے۔الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔ عدالت کے سامنے پی ٹی آئی کے آئین کا خلاصہ بھی رکھوں گا۔ پی ٹی آئی نے 8 جون 2022 ءکو پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔ سپریم کورٹ نے 8 فروری کو عام انتخابات کا فیصلہ دیا۔ پی ٹی آئی کے پاس عام انتخابات کی تاریخ آنے کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے 20 دن کا وقت تھا۔ پی ٹی آئی نے 2 دسمبر 2023 ءکو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا اگلا پوائنٹ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں ہے۔ غلط فیصلہ دیا جائے تو اس کا جوڈیشل ری ویو ہو سکتا ہے۔ میرا پانچواں نکتہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک روا رکھا۔ الیکشن کمیشن فیئر ٹرائل نہیں دے سکتا ، نہ ٹرائل ہوا۔ ٹی آئی کے کسی رکن نے الیکشن چیلنج نہیں کیا۔ پی ٹی آئی الیکشن کا تنازع سول کورٹ میں ہی جا سکتا تھا۔ پی ٹی آئی شہریوں کی پرائیویٹ ایسوسی ایشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے پہلے 2022 ء میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے۔ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے ، اس لئے عملدرآمد کیا۔ سپریم کورٹ اسی دوران آٹھ فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی۔ پی ٹی آئی دو دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔ الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کیخلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں۔ ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا۔ جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل کی تعیناتی سمیت مختلف دلائل دیئے۔ سوال یہ ہے کیا پارٹی کے اندر جمہوریت ہے یا نہیں؟ کیا ممبران کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا شفاف موقع ملا یا نہیں؟ اس بنیادی سوال کا جواب نہ ہونا مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی ممبر ہیں۔ محض آپ کسی کو پسند نہ کریں تو ممبر شپ ختم نہیں ہو جاتی۔ہم الیکشن کی چھوٹی چھوٹی باریکیوں میں نہیں جائیں گے۔پاکستان میں الیکشن کی شفافیت کم ہی تسلیم کی جاتی ہے۔ ہم صرف جنرل نوعیت کی چیزیں جاننا چاہتے ہیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے سو موٹو نہیں لیا، 15 شکایات فائل ہوئیں۔ آپ لیول پلئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں تو وہ آپ کی پارٹی میں بھی ہونی چاہیے۔ آپ نے اپنی پارٹی کا آئین اتنا سخت بنایا ہوا ہے، اسی میں سے سوال اٹھ رہے ہیں، اگر آپ اپنے آئین کے مطابق الیکشن کراتے تو پاکستان کے شفاف ترین الیکشن ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن بارے بتائیں۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے آئین کی بنیاد پر بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔اکبر ایس بابر صاحب کی اگرسپورٹ نہیں ہے تو وہ ہار جاتے۔آپ کے بانی چیئرمین اس وقت جیل میں ہیں، انھیں ٹرائل کا سامنا ہے۔ کل بانی چیئرمین باہر آکر کہیں گے میں تو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں۔ کم از کم ممبران کو ووٹ کا حق تو ملنا چاہیے۔ میں تو پی ٹی آئی کے آئین سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میڈیا والی باتیں الگ ہیں ، عدالت والی باتیں الگ ہیں۔ پہلے آپ لاہور ہائیکورٹ گئے ، پھر پشاور ہائیکورٹ چلے گئے۔ہمیں قانون کے مطابق بتائیں۔پارلیمنٹ کا قانون کہتا ہے سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت لائیں، بس اتنی سی بات ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ" فوج" کا لفظ استعمال کیوں نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آ رہی۔آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے۔آپکی درخواست پر بارہ دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی۔آپ کی جماعت خوش تھی ، سب خوش تھے۔آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا۔ جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہو گا۔ جب آپ کو الیکشن کمیشن نے پہلا نوٹس جاری کیا۔ میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں ۔ اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں ، اگر وہ سچے ہیں۔ جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپکو نوٹس کیا تھا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی ؟ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہو گی۔اچانک سے یہ الزام لگا دینا اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو کر کچھ کر رہی ہے۔ ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے۔مگر سوال یہ اٹھتا ہے انہیں اس وقت یہ سب کیسے معلوم تھا؟اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپکا یہ الزام نہیں ہو گا کہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔

وکیل علی ظفر نے اس پر کیا کہ جب انٹرا پارٹی الیکشن میں سب بلامقابلہ بھی ہو جائیں تب بھی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بڑے بڑے عہدوں پر سب جانتے ہیں سیاسی جماعتوں پر کون عہدیدار ہیں۔چھوٹے عہدوں پر تو لوگوں کو موقع ملنا چاہیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب انٹرا پارٹی الیکشن ہی بلامقابلہ ہوا تو لوگ کیوں جمع ہوئے۔ ععلی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے جب ایک پینل طے دے دیا تو احترام میں کوئی مقابلے میں ہی نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ آٹھ فروری 326اراکین کو بلامقابلہ جتوا کر لے آئیں، ایسے الیکشن کو میں نہیں مانتا۔لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس بہت ہو گیا۔عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں ہیں۔علی ظفر نے کہا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے کہ چیئرمین کا الیکشن دو سال باقی تین سال بعد ہوں گے۔ یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔ انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن دو لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی سٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ اس پر علی ظفر نے ان کو بتایا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر گوہرعلی خان کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ عمران خان سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ اس پر علی ظفر نے بتایا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں۔ مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ اس پر ان کو بتایا گیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ جنہوں نے خود دو سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ؟

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ الیکشن ہو رہے ہیں یہ پی ٹی آئی ممبران کو کیسے علم ہوا؟چیف جسٹس نے پوچھا کہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذات نامزدگی اپ لوڈ ہے؟آپ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جائیں سب کچھ مل جائے گا۔ ہم نوکری کے فارم اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیتے ہیں؟وکیل علی ظفر نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی فارم چاروں دفاتر اور ویب سائٹ پر تھے۔ جب انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پر کون کون لوگ موجود ہوتے ہیں۔ شاید احترام میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔ معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا۔ کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے ، مگر کسی ایک پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔

برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔پی ٹی آئی کوئی تو کاغذ کا ٹکڑا دکھائے کہ امیدواروں سے فیس لی یا کاغذات نامزدگی کا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات اتنے خفیہ کیوں رکھے؟انتخابات آزادانہ ہونے چاہیں تاکہ ورکرز مضبوط ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوجاتی۔ آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ پاکستان کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے۔ سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کیساتھ پچاس ہزار روپے فیس بھی تھی۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پچاس ہزار کس بینک میں گئے ؟وہ دکھا دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پچاس ہزار فیس کی کوئی رسید ہوگی، دوسروں سے رسیدیں مانگتے ہیں خود تو دکھائیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی وکلا سے بار با ر دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیالیکن وہ اسے پیش کرنے میں  ناکام رہے۔ چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے کہاکہ سوالات کا جواب نہیں دینگے تومجبورا! پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا ۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ کوئی دستاویزی ثبوت ہونا چاہیے ، کل کوبانی چیئرمین کہیں کہ میں نے توگوہرکوچیئرمین بنایا ہی نہیں، تحریک انصاف نے توخود پرخودکش حملہ کردیا ۔پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا ۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ کی بات کرتی ہے ، کیا اپنے ممبران کولیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی ؟چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں ؟ پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں کل وہ باہرآکرکہ دیں کہ یہ عہدیدارکون ہیں توکیا ہوگا؟ پی ٹی آئی نےان 14افراد کوانتخابات میں شرکت سے کیوں روکا؟ چیف جسٹس نے کہاکہ اکبر ایس بابر کی برطرفی کی دستاویزدیں ورنہ پارٹی ممبرتسلیم کرینگے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی آمریت کی طرف جارہی ہے ، لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ووٹنگ نہیں ہوئی۔ وکیل حامد خان نے دلائل میں الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت قرار دے دی ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے جواب الجواب کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔