سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، وارث پراچہ) لمبے انتظار کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لیے آخر کار الیکش کمیشن آف پاکستان نے تاریخ 8 فروری مقرر کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں عام انتخابات سے متعلق بے یقینی کی فزا بھی ختم ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن اس سلسلے میں مختلف محکموں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ انتخابات کا انعقاد برقت اور بہترین طریقے سے کیا جاسکے۔ چونکہ یہ انتخابات آئندہ سال فروری کے پہلے دس دنوں کے اندر ہورہے ہیں تو یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کے کئی حصے اس دن برف سے ڈھکے ہونگے اور کئی علاقے سخت سردی کی لپیٹ میں ہونگے۔
لہٰذا یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ انتخابات کےدن سردی ، برف اور دھند سے متاثرہ علاقوں میں ووٹر ان مسائل کی وجہ سے کم تعداد میں پہنچیں۔ یہ جاننے کے لیے ماضی میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں سے سخت سردی میں 1970،1985، 1997 اور 2008 میں منعقد ہوئے اور ان کا ٹرن آؤٹ پر کیا اثر ہوا۔
پاکستان میں با قاعدہ انتخاب 1970 میں ہوا جو اکتوبر میں ہونا تھے لیکن سیلاب کے سبب 7 دسمبر 1970 میں منعقد ہوئے اس وقت بھی جہاں موسم سرد تھا ٹرن آؤٹ متاثر ہوا جس کو دیکھا جا سکتا ہے۔
25 فروری 1985 میں ہونے والے انتخابات کی کچھ تصاویر ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے زیادہ سردی والے علاقوں میں ٹرن آؤٹ کم رہا اسی طرح تین فروری 1997 کا انتخابات کا جائزہ لیں تو یہی نظر آتا ہے سال 2008 کے انتخابات بھی فروری میں ہوئے اس کو احاطہ بھی تصویروں میں کیا جا سکتا ہے ملاحظہ کیجئے محکمہ موسمیات کے فراہم کر دہ گذشتہ برسوں کے ریکارڈ کے مطابق 2004 اور 2005 کے موسم سرما میں ملک میں مجموعی طور پر 81 انچ برف پڑی تھی جبکہ گزشتہ دو برس میں یعنی 2016-17 میں 44 انچ اور 2017-18 میں 17.5 انچ برف ریکارڈ کی گئی تھی۔ گزشتہ ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا ادراک کرنا آسان ہوگا کہ ماضی میں برفباری اور سردی کی شدت کیا رہی ہے اور یہ کس حد تک چناؤ کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔ ماضی کے انتخابات کی جھلک: 1970 سے 2018 تک پاکستان میں 11 الیکشنز ہوئے ہیں جن میں سے 1970 کے عام انتخابات دسمبر، 1985 کے 25 فروری، 1997 کے تین فروری، 2008 کے الیکشنز 18 فروری کو منعقد ہوئے اس حوالے سے سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ 1970 کے انتخابات اکتوبر میں ہونا تھے لیکن سیلاب کے پیش نظر یہ انتخاب7 دسمبر کو ہوئے۔ ان کا کہنا ہے 1985 کے انتخاب غیر جماعتی تھے اس لئے اس میں الیکشن میں حصہ لینے والوں کو ٹرن آؤٹ کا مسلہ نہیں تھا کیونکہ یہ غیر جماعتی انتخابات تھے اس لیے امیدواران کم ووٹ لیکر بھی کامیاب ٹھہرے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1997 والے انتخابات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم تھے دھند کم ہوتی تھی اس لئے انتخابات کی مہم متاثر نہیں ہوئی تھی۔ سنو نیوز ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2008 کا انتخاب بھی سردی میں منعقد ہوا تھا لیکن اس تمام الیکشن میں جماعتیں محترک تھیں اور کسی سیاسی جماعت نے انتخاب کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ ماضی میں کتنی بار الیکشن سردی میں ہوئے اور ان کےے ٹرن آوٹ کیا تھے ۔۔ کیا اس سے فرق پرتا ہے ؟ کیا موسم الیکشن کی شفافیت پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے ؟ آئیے ان سوالات کے جوابات کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تصویری جھلکیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح ماضی میں ان حلقوں کے انتخابات متاثر ہوئے ہیں جہاں پر سردی کی شدت کے سبب ٹرن آؤٹ متاثر رہا۔ لیکن دوسری جانب کچھ حلقوں میں یہ باز گشت بھی ہے کہ اگر دھند ہوئی تو ماحول ویسا ہی ہوگا جیسا ڈسکہ الیکشن میں پیدا ہوا تھا۔ اگر 2018 کے الیکشن کو دیکھیں جو 25 مئی کو ہوئے تھے اس میں ٹرن آؤٹ دیکھا جا سکتا۔ اب کی بار الیکشن 8 فروری 2024 میں منعقد ہونے جا رہے ہیں اس میں ایک جانب تو موسم کی شدت ہوگی اور دوسری جانب کچھ سیاسی سوج بوجھ رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیشتر اضلاع بالخصوص بلوچستان اور کے پی میں برفباری ہوتی ہے جس سے وہاں کا نظام زندگی معمول سے ہٹ کر ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں انتخابی عمل متاثر ہو سکتاہے اور ساتھ انتخابی مہم بھی ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی انتخاب سے باہر رہی تو سردی میں مہم چلانا آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ کانٹے دار مقابلہ نہیں ہوگا اور الیکشن میں حصہ لینے والی جماعت کا اپنا ووٹر نکلے گا۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ عام انتخابی ٹرن آٶٹ پر موسم اثر انداز ہو سکتا ہے کیونکہ فروری میں ملک میں سخت سردی اور پہاڑوں علاقوں میں برفباری ہوتی ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی مفکرین کا کہنا ہے کہ اس صوبے کو موسم کے اعتبار سے دو زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک ہے بالائی علاقے جہاں پر سردی کا آغاز نومبر سے شروع ہوتا ہے دریں اثنا یہاں پر سردی کی پیک جنوری، فروری اور مارچ میں ہوتا ہے، کوئٹہ، چمن، خان مہتر زئی، قلعہ سیف اللہ ژوب، زیارت، خانو زئی سرد علاقے ہیں جہاں پر برفباری ہوتی ہے اور درجہ حرارت منفی 11 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جس سے لوگوں کو معمول سے ہٹ کر زندگی گزارنا پڑتی ہے، لوگ سردی کی شدت سے بچنے کیلئے کم سردی والے علاقوں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کے سینئر سیاسی رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہےموسم کی شدت کا اثر اتنا گہرا نہیں ہوتا جتنا سسٹم کی بے ترتیبی الیکشن کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے سنو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن اور الیکشن کروانے والا ادارہ ٹھیک کام کرے تو لوگ خود ہی اپنے علاقوں میں ووٹ ڈالنے کیلئے آ جاتے ہیں۔ اسی طرح کے پی کے بالائی علاقوں میں دسمبر، جنوری، فروری میں برفباری کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور 80 فیصد لوگ اپنے گھروں سے ہجرت کر جاتے ہیں۔ مزید برآں بالائی علاقوں میں 3 سے 4 فٹ برف پڑتی ہے جس سے راستے بند ہو جاتے ہیں اور نقل و حرکت بند ہو جاتی ہے، اس لئے فروری میں ہونے والا الیکشن ٹرن آؤٹ کو متاثر کرے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق ایم این اے سلیم الرحمان نے سنو نیوز کو بتایا کہ یقینا موسم ووٹ کے ٹرن آؤٹ کو متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ برفباری دسمبر سے فروری تک 3 سے 4 فٹ تک پڑتی ہے جس سے وہاں رہائش پذیر لوگ کم سردی والے علاقوں میں ہجرت کر جاتے ہیں اس لیے ان کا اس موسم میں اپنے گھروں کو لاٹنا ممکن نہیں رہتا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 10 سے 20 فیصد بتائی جاتی جو اپنا حق راہ دہی استعمال نہیں کر پائیں گے، انہوں نے مزید بتایا کہ 1970 کا انتخاب بھی دسمبر میں ہوا تھا ان کو یاد ہے تب بھی سردی کے اثرات یکساں تھے لیکن تب پاپولیشن اتنی نہیں تھی جتنی اب ہے۔ طاہر مہدی ماہر سیاسی امور ہیں اور صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا ٹھیک انداز میں محفوظ تو نہیں لیکن کافی تعداد برفباری والے علاقوں میں رہنے والوں کی اپنے گھروں میں نہیں ہوتی جس وجہ سے ٹرن آؤٹ پر اثر تو پڑتا ہے، لیکن ہماری حکومت کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں عوام کو دوسرے علاقے سے واپس ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے لائے اور پھر ان کو اسی جگہ چھوڑ آئے۔ سینئر صحافی احمد رضا کھرل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان حالات میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا لازم ہے مثال کے طور پر موسمیاتی تبدیلی سے کس طرح لوگ متاثر ہوں گے، ان دنوں محکمہ موسمیات والے کیا پیشگوئی کریں گے، موسم کا مزاج کیسا رہے گا، اس موسم میں کیا وہاں کے سیاست دان انتخابی مہم چلا سکیں گے، کیا سردی کی شدت صحت کے مسائل پیدا کرے گی ان باتوں کو مدِ نظر رکھنا بہت اہم ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں برفباری ہوتی ہے وہاں وقت بڑھانا چاہیے، ٹرانسپورٹ مہیا کرنی چاہیے تاکہ آنے میں لوگوں کو کم مسلہ پیش آئے۔404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage