
لاہور:(سنونیوز) محفوظ مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ہزاروں لاکھوں افراد ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے ہیں اور وہاں ملازمتیں کرتے ہیں اس کے لیے ایک تو قانونی طریقہ ہے کہ آپ ویزہ اورپاسپورٹ کے ذریعے دوسرے ملک جائیں تاہم دوسرا طریقہ جو آج کل بہت زیادہ استعمال کیاجارہاہے وہ ڈنکی ہے۔
ڈنکی بنیادی طور پر ایک ملک سے دوسرے ملک غیرقانونی طور کیے جانے والا سفر ہے ،یہ سفر کس طرح کیاجاتاہے،اس میں کن مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے،ڈنکی لگوانے والے ایجنٹ کس قدر انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں ؟
ڈنکی کا روٹ عام طور پر یونان اور یورپی ممالک کا ہوتا ہے جس کے لیے بنیادی طور پر پاکستان کے راستے ایران ،ترکیہ کے رستے یورپ داخل کیا جاتا ہے،چونکہ پاکستان کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب ہیں ،معاشی بدحالی اور بیروزگاری اپنے عروج پر ہے تو نوجوانوں اور مایوس افرا د کو اپنے چنگل میں پھنسانے کے لیے نوسرباز ایجنٹ سوشل میڈیا پر بیرون ملک بھیجنے کی پوسٹس لگاتے ہیں جس میں وہ سہانے خواب دکھا کر بیروزگار اور مایوس افراد کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
ایسی پوسٹس دیکھ کر لوگ لاکھوں روپے ان ایجنٹوں کے حوالے کردیتے ہیں جو انہیں محفوظ مستقبل بنانے کے سفر کی راہ دکھا کر موت کی وادیوں میں اتارنے کی تاک میں ہوتے ہیں۔
اس سفر کی شروعا ت کوئٹہ کے سفر سے ہوتی ہے جہاں پہنچنے کے لیے ڈنکی لگانے والے افراد کو سیٹوں پر بٹھانے کی بجائے بسوں کے نیچے قائم کردہ خفیہ خانوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان سے پوچھ گچھ نہ ہو اور انہیں واپس نہ بھیج دیا جائے۔
کوئٹہ پہنچنے کے بعد ان افراد کو ایران لے جایا جاتا ہےجہاں پر انہیں جانوروں کی طرح رکھا اور ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے انہیں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں دیا جاتا اور اگر وہ اپنے ساتھ کچھ سامان لائے بھی ہو تو درندہ صفت ایجنٹ ان سے وہ سب کچھ چھین لیتے ہیں۔
ایران سے ترکی کا رستہ تقریبا جنگل کے ذریعے طے کیاجاتا ہے جو بارہ سے چودہ دن پر محیط ہوتا ہے اس سفر میں مشکلات کی کوئی حد نہیں ہوتی لیکن ڈنکی لگانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا انہیں اس سفر میں نہ ہی کچھ کھانے کو دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اور سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
ایجنٹ کی جانب سے اس سفر کے لیے چنے اور بسکٹ ساتھ رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ وہ بھوک سے بے حال نہ ہوجائیں ،دو ہفتوں سے زائد دنوں کا سفر مکمل کرنے کے بعد جب یہ غیر قانونی مسافر ترکیہ پہنچتے ہیں تو پھر انہیں استنبول سے یونان لے جایا جاتا ہے جو بنیادی طور پر دو گھنٹے پر مشتمل نہری سفر ہے۔
نہر کے دوسری طرف جنگل ہے جہاں پر یونانی سیکیورٹی ہر وقت الرٹ رہتی ہے اگر اسی جگہ کو پار کرلیا جائے تو پھر باآسانی یونان داخل ہواجاسکتا ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو اور یونانی فورسز کی نظروں میں یہ مسافر آجائیں تو انہیں واپس ترکیہ بھیج دیا جاتا ہے۔
جو لوگ یونان داخل ہونے میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ ترکیہ میں ملازت شروع کردیتے ہیں چونکہ وہ غیر قانونی طریقے سے داخل ہوئے ہوتے ہیں وہاں پر انہیں ملازمت کرنے پر انتہائی قلیل اجرت دی جاتی ہے جس سے وہ بمشکل اپنا گزارہ کرپاتے ہیں۔
غیرقانونی تارکین وطن جب وہاں پکڑے جائیں تو پھر انہیں ڈی پورٹ کرکے اپنے اپنے ملک بھیج دیا جاتاہے جہاں پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
ڈنکی کے ذریعے یورپ جاناانتہائی خطرناک عمل ہے جس میں کسی بھی طرح کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاتی کہ آپ منزل تک پہنچ پائیں گے بھی یا نہیں اس حوالے سے حال ہی میں ہونے والا یونان کشتی حادثہ ہم سب کے لیے بہت بڑی مثال ہے جس میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی غیرقانونی انسانی ایجنٹس کے خلاف موثرکارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے اس حوالے سے بہت سے گرفتاریاں عمل میں آئی ہے جس نے پورے پاکستان اور دیگر ملکوں میں قائم اس نیٹ ورک کو کمزور کردیا ہے۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage