آپ کا ووٹ آپ کی مرضی
Image

تحریر: حماد حسن

آپ نے ان لاشوں کا بھرم بھی نہیں رکھا؟ آپ کو آپ کی جمہوری جدوجہد کے لئے لڑتے اور قید و بند کاٹتے جوانمرد بھی یاد نہیں رھے؟ یقینا ووٹ اپنی مرضی سے دینے کا حق ھے خواہ اسے آپ دانائی تحمل نظریئے اور ملک کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کریں اور اس کے فوائد مستقبل کے منظر نامے سے جوڑ دیں یا اس ووٹ کو نفرت حماقت اور جذباتیت کی تمسخرانہ خواہش کو سونپ کر اور حقائق سے بے خبری کا نشان بنا کر اپنے آپ پر چسپاں کردیں اور اس اجتماعی بربادی میں اپنا حصہ ڈالیں جس کے نتائج سے آپ کو کوئی سروکار ہی نہ ہو بہرحال موم بتی بدست فیشن کی دلدادہ لیکن تہذیبی حسن سے بے خبر شتر بے مہار خواتیں کی مانند "آپ کا ووٹ آپ کی مرضی "سو جان کی امان پاتے اور آپ کی "مرضی" کی طرف آتے ہوئے موجودہ الیکشن کے حوالے سے ایک اور رخ ( میں جرم نہیں کہہ رہا ہوں ) کی طرف آپ کی توجہ دلانے کی جسارت کر رہا ہوں.

آپ نے پشاور سے غلام احمد بلور اور ان کی بیوہ بہو ثمر ھارون بلور ( جن کا شوہر اور سسر دونوں دہشت گردوں کے سامنے ڈٹے اور اپنی لاشیں گرا آئے ) کو شکست دلوا کر کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کا تعلق آپ کے اس قبیلے سے ھے جسے قربانی وطن پرستی دلیری اور عقل و خرد کی بجائے اہنے "قبیلے " کا فرد ہی پسند ہوتا ھے خواہ وہ فرد ایک سو نوے ملین میں لت پت ہی کیوں نہ ہو وہ سونامی بلیئن ٹری والا کیوں نہ ہو عثمان بزدار اور فرح گوگی کیوں نہ ہوں یہاں تک کہ وہ مونس الہی سے مظاہر نقوی تک ہی کیوں نہ ہوں آپ کردار اور کارکردگی کا پوچھے بغیر اسے نہ صرف اس سے بہتر لیکن حریف اور مخالف پر فوقیت دیتے رہیں گے بلکہ حسب توفیق اپنے ہم قبیلہ امیدوار کو گالم گلوچ الزام و دشنام اور ووٹ کی کمک بھی فراہم کرتے رہیں گے.

بلور خاندان کے آدھے لوگ آپ کےلئے دہشت گردی کی جنگ لڑتے ہوئے مارے گئے لیکن آپ نے احسان رکھنا تو کجا کہ الٹا انہیں گالیوں سے بھی نوازا اور شکست سے بھی دو دو چار کیا, میاں افتخار اسی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپ کےلئے نہ صرف فرنٹ لائن پر جوانمردی کے ساتھ لڑا بلکہ اپنے اکلوتے بیٹے سے بھی ھاتھ دھو بیٹھا لیکن آپ کا انتخاب ایک جذباتی سوچ اور عقل سے بعید سیاست ہی ٹھرا. بونیر میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی نوجوان ڈاکٹر سویرا پرکاش آپ کی گلیوں میں گھومتی آپ سے ووٹ مانگتی رہی اگر عقل و خرد سے کام لے کر سویرا پرکاش کو کامیابی دلاتے تو عالمی سطح پر دہشت گردی مذہبی تنگ نظری اور انتہا پسندی کے الزامات کا نہ صرف عملی شکل میں تردید ہوتی بلکہ پاکستان خصوصا پختون قوم کا ایک شاندار اور مثبت پیغام بھی عالمی برادری کو دیا جاتا کہ جہاں طالبان تھے وہاں سے اب اقلیتی اور وہ بھی خاتون منتخب ہو کر آئی لیکن فیصلہ دانائی اور بصیرت کی بجائے جذباتی وابستگی اور زمینی حقائق سے لا علم حماقت سے پھوٹا اور ایک شاندار موقع گنوا کر رہا.

خواجہ سعد رفیق اور جاوید لطیف جیسے جینوئن سیاسی کارکنوں اور جمہوری جدوجہد کی علامتوں کو بھی منہ کے بل گرانے میں اس لئے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی کہ ان لوگوں کو جتوانا مقصود تھا جو اس قبیلے سے وابستہ ہیں جنہیں جمہوری جدوجہد آمریت مخالفت اور مزاحمتی تحریکوں سے کیا لینا دینا بلکہ ان کا منبع و مقصد ہی اقتدار کا حصول اس حد تک ٹہرا کہ "میں فوج کے سربراہ کے علاوہ کسی سے مذاکرات نہیں کروں گا " کہنا یہی ھے کہ جذباتیت کی فراوانی اور شعور کا فقدان وزڈم اور دور اندیشی تو کیا کہ احسان تک یاد نہیں رہنے دیتا !بھر حال آپ کا ووٹ آپ کی مرضی لیکن جاتے جاتے عربوں کی صحرائی دانش کو بھی مستعار لے لوں کہ..پرانے مکہ کے پارلیمان (دارالندوہ ) کا ممبر بننے کے لئے اولین شرط یہ تھی کہ اس کی عمر کم از کم چالیس سال سے زائد ہو، پوچھا گیا کہ یہ کیوں؟تو جواب ملا کہ ہم اپنے فیصلے اور مستقبل تجربے اور دانائی کی بجائے لونڈوں کی جذباتیت کے ھاتھ نہیں دے سکتے !