دو گھنٹے موبائل فون کا استعمال نوجوانوں کے لیے مفید
Image

سیئول:(ویب ڈیسک)موبائل کے استعمال کے حوالےسے یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوتی کہ کتنے گھنٹوں تک موبائل استعمال کیا جاناچاہیے تاہم ایک دلچسپ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو گھنٹے تک موبائل کا استعمال نوجوانوں کے لیے بڑی حد تک مفید ہے۔

تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کی ہین یانگ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں 2017 سے 2020 کے درمیان 50 ہزار کے قریب کورین افراد سے دو طویل سوالنامے پُر کروائے گئے ۔پروکروائے جانے والے سوالناموں میں ان افراد سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے متعلق پوچھا گیا جبکہ دوسرے میں ان لوگوں نے اپنے اسمارٹ فون استعمال کے دورانیے کے متعلق بتایا۔

محققین نے سوالناموں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے اسمارٹ فون کے استعمال اور صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے درمیان تعلق کا (عمر، جنس اور سماجی و معاشی رتبے کا خیال رکھتے ہوئے) جائزہ لیا۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ افراد جو روزانہ ایک سے دو گھنٹے کے درمیان فون استعمال کرتے تھے ان میں ڈپریشن، خود کشی کے خیالات، نیند کے مسائل، ذہنی دباؤ اور شراب نوشی کی لت کے خطرات فون بالکل استعمال نہ کرنے والے افراد کی نسبت کم تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/08/12/2023/latest/58500/

البتہ، وہ افراد جو چار گھنٹے سے زیادہ وقت اپنے فون پر صرف کرتے تھے ان میں اِن ذہنی صحت کے مسائل اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کی شرح اعتدال کے ساتھ ڈیوائس استعمال کرنے والوں کے مقابلوں میں 22 فی صد تک زیادہ تھی۔

ریسرچرز نے اپنی فائنل رپورٹ میں لکھا کہ خود کشی کی کوششوں کے خلاف فون کا ایک سے دو گھنٹے کے درمیان استعمال محفوظ پایا گیا۔ نتائج کے مطابق روزانہ اسمارٹ فون کا دو گھنٹوں سے کم استعمال ذہنی صحت پر بالکل بھی استعمال نہ کیے جانے کے مقابلے میں زیادہ مفید اثرات رکھتا ہے۔

تحقیق میں دیکھا گیا کہ وہ نوجوان جو دو گھنٹے سے کم وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے تھے ان میں ذہنی دباؤ کے خطرات 30 فی صد، نیند کے مسائل 27 فی صد، ڈپریشن کے امکانات 38 فی صد، خود کشی کے خیالات 43 فی صد اور شراب نوشی لت کے امکانات 47 فی صد تک کم تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/07/12/2023/latest/58343/

دوسری جانب ای ویپنگ نوجوان نسل کے لیے بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے،برطانیہ میں رہنے والی 12 سالہ سارہ گرفن کوگذشتہ ستمبر میں دمہ کا دورہ پڑا اور اسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ سارہ، جو چار دن سے ہسپتال میں کومہ میں تھیں، کی حالت فی الحال بہتر ہے، لیکن ان کے ویپنگ کی لت نے ان کے پھیپھڑوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

سارہ کی والدہ مریم نے بی بی سی کو بتایا، “ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا ایک پھیپھڑا تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔” اس کا نظام تنفس 12 سال کے بچے کی بجائے 80 سالہ بوڑھے جیسا ہو گیا ہے۔ مریم کا کہنا ہے کہ ’’علاج کے دوران سارہ کی حالت دیکھ کر میں نے ایک بار سوچا کہ میں اپنی بیٹی کو کھو دوں گی۔ تاہم، سارہ نے اب ویپ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب لوگوں کو ویپ نہ کرنے کے لیے آگاہ کر رہی ہے۔

سارہ صرف 9 سال کی عمر میں ویپنگ بنانے کی عادی ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی سکول جانے والے چھوٹے بچوں کے بخارات کے آلات تلاش کرنے کے واقعات نے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

کچھ ماؤں کی طرف سے تشکیل دی گئی تنظیم Mothers Against Vaping نے گذشتہ اکتوبر میں خواتین ارکان پارلیمنٹ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ پابندی کے باوجود چھ سے سات سال تک کے بچوں کو ای سگریٹ جیسی مصنوعات حاصل کرنا ان کی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔

ای سگریٹ کیا ہے؟

ای سگریٹ بیٹریوں پر چلتے ہیں۔ اس میں مائع ہوتا ہے اور اسے بیٹری سے گرم کرنے کے بعد اسے سانس کے ذریعے اندر لیا جاتا ہے۔ مائع میں عام طور پر تمباکو سے حاصل کردہ نیکوٹین کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کیمیکلز اور ذائقے جیسے پروپیلین گلائکول، کارسنجن، ایکرولین، بینزین وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

اب یہ پرکشش پیکیجنگ میں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ویپنگ ڈیوائسز کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ میں حالیہ سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 11 سے 17 سال کی عمر کے پانچ میں سے ایک بچے نے وائپنگ کو استعمال کیاہے۔ یہ تعداد 2020 ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔

2021 ء میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 11 سے 15 سال کی عمر کے ہر 10 میں سے ایک بچہ اسے استعمال کر رہا ہے۔ ناردرن آئرلینڈ چیسٹ، ہارٹ اینڈ سٹروک کی فیڈلما کارٹر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں 17 فیصد نوجوان باقاعدگی سے وائپنگ کا استعمال کر رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے چین کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ لینسٹ جرنل کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ لوگ سگریٹ نوشی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے لیے وائپنگ کا دوہرا خطرہ لاحق ہوتا ہے، سب سے پہلے، اس میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکل، نکوٹین وغیرہ ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ دوم، ایک بار جب کسی کو بخارات کی لت لگ جاتی ہے تو مستقبل میں سگریٹ کو پینےکے امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/20/11/2023/latest/55339/

دو دہائیاں قبل 2003 ء میں ای سگریٹ بنانے والے چینی فارماسسٹ ہون لک نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی مدد سے لوگ آسانی سے سگریٹ نوشی ترک کر سکیں گے۔ لیکن ای سگریٹ، جو لوگوں کو سگریٹ کی لت سے نجات دلانے کے لیے بنائے گئے تھے، اب دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں ۔ ایسی کوئی مستند تحقیق نہیں ہے کہ ای سگریٹ کا استعمال سگریٹ کی لت کو چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

کیا vaping سگریٹ سے کم مہلک ہے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک ہی بات ہے کہ دو قسم کے زہر میں سے کون سا بہتر ہے۔ای سگریٹ کے ذریعے سگریٹ نوشی چھوڑنے کا امکان مکمل طور پر بکواس ہے۔ ہارورڈ ہیلتھ پر شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وائپنگ کرنے والے افراد میں سے صرف 10 سے 14 فیصد لوگ سگریٹ نوشی چھوڑ سکتے ہیں۔

اکثر بچے اپنے دوستوں کے دباؤ یا اسے ایک نیا فیشن سمجھنے کی وجہ سے وائپنگ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ ضروری ہے کہ والدین اس بارے میں آگاہ ہوں تاکہ وہ اپنے بچوں کو اس کے نقصانات کے بارے میں بتا سکیں۔ تھنک چینج فورم کے سروے میں 39 فیصد نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ انہیں ای سگریٹ کے نقصانات کے بارے میں والدین، اساتذہ یا میڈیا کے ذریعے معلومات ملی ہیں۔

کئی ممالک میں پابندیوں کے باوجود ای سگریٹ باآسانی دستیاب ہیں۔ یہ آن لائن بھی خریدے جا سکتے ہیں۔ لیکن اسکولوں کے آس پاس ان کی دستیابی بہت تشویشناک ہے۔ پابندیوں کے معاملے میں برطانیہ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ 18 سال سے کم عمر افراد ان کی فروخت کرنے پر پابندی ہے۔ ادھر برطانوی وزیر اعظم رشی سنک پابندیوں کو مزید سخت کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وائپنگ ڈیوائسز اور ذائقہ دار مسوڑوں وغیرہ کی پیکنگ کو بچوں کے لیے پرکشش بنانے کے علاوہ دکانوں میں ان کی نمائش پر پابندی لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/18/11/2023/latest/54852/