جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراض اٹھا دیا
اسلام آباد: (سنو نیوز) عدالت عظمیٰ کے معزز جج جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 28 اکتوبر کو شوکاز نوٹس جاری کیا، میری اس تحریر کو شوکاز نوٹس کا جواب نہ سمجھا جائے۔ اپنے اوپر لگے الزامات کی تفصیلات لینے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھ رہا ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ میرے خلاف درج شکایات کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، جس کو دیکھتے ہوئے جواب دے سکوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ عزت نفس کا تقدس واضح کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ جج سمیت ہر شہری کو آئین و قانون کے مطابق حقوق دیئے جائیں۔
انہوں نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس کمیشن کا حصہ ہیں۔ جن ججز کا آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے کمیشن بنایا گیا ، وہی میرے خلاف شکایات کا بھی حصہ ہیں۔ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
معزز جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے جواب میں لکھا کہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ جانبدار جوڈیشل کونسل کا اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے، جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی میرے خلاف کارروائی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس سپریم کورٹ فیصلوں کی نفی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی پریس ریلیز میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی۔میرے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری تقرری سمیت میرے متعدد فیصلوں کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف کارروائی کیلئے چیف جسٹس بندیال کو خط لکھا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ موجودہ جوڈیشل کونسل کے تمام فیصلے جانبدار ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تصور ہونگے۔ جسٹس سردار طارق کیخلاف شکایت پر ان کو شوکاز نوٹس جاری کیے۔ بغیر شکایت کنندہ آمنہ ملک کو نوٹس کیا گیا۔ کونسل کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود کیخلاف بھی شکایات 27 اکتوبر کے اجلاس میں زیر غور تھی۔
اپنے جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے صرف حتمی رائے صدر مملکت کو بھجوا سکتی ہے۔ آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز بنانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل رولز کو پہلے ہی غیرآئینی کہہ چکے ہیں۔ شوکاز نوٹس میں اپنا موقف تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی۔ میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا گیا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو موقع جسٹس سردار طارق کو کونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا۔ شوکاز نوٹس میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ شوکاز کیساتھ منسلک 10 شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی موجود نہیں ہیں۔