عام انتخابات میں خواتین کی شرکت محدود، آخر اس کی وجہ کیا؟
Image

سنو الیکشن سیل:(رپورٹ، حنا لیاقت) ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ممالک، خواتین ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ تعلیمی میدان ہویاصحت کاشعبہ، کھیل، سیاست ، سماجی فلاح و بہبودخواہ ہر میدان میں صنف نازک نےذہانت اور پراعتمادی سےاپنی قابلیت کا سکہ منوایا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی عورتوں کے شانہ بشانہ ہی ترقی کی راہیں ہموار کر سکے ہیں۔ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر منحصر ہے اور کارزار حیات میں وہ پوری طرح شامل ہوسکتی ہیں ۔جن معاشروں میں عورتوں کی سیاست اور سماج میں بھرپور شرکت ہے وہ ہی ترقی کے ذینے طے کررہے ہیں۔

جمہوریت بھی تبھی پوری ہوتی ہے جب آبادی کا یہ آدھا حصہ پوری طرح متحرک ہو کر جمہوری عمل میں شرکت کرے گا تو یقیناً دور رس اور مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ لیکن آج بھی سیاست اور کھیل سمیت بہت سے میدانوں میں انہیں برابری کے حقوق نہیں دیئےجاتے۔ جبکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ "دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتاجب تک کہ قوم کے مردوں کیساتھ خواتین بھی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ حصہ نہ لیں۔ "

لیکن قائد کا یہ فرمان محض کتابوں تک ہی محدود ہے۔اس کی ایک مثال بلوچستان میں ملتی ہے جہاں خواتین کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔جہاں معاشی ترقی کیلئے خواتین کو بااختیار بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے وہاں بدقسمتی سے خواتین کی شرح خواندگی صرف 27 فیصد ہے۔

اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی خواتین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشستیں ہیں اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 51 ہے۔ جبکہ یہاں نیشنل اسمبلی کے 5 حلقوں سے خواتین نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے اور صوبائی اسمبلی کی 21 سیٹوں کی نمائندگی کیلئے بھی خواتین آگے نہ بڑھ سکیں۔ قومی حلقوں میں این اے 251 (قلعہ سیف اللہ، شیرانی، ذوب)، این اے 258 (پنجگور،کنکیچ)، این اے 261 (قلات، سوراب، مستونگ) ، این 264 (کوئٹہ 3)، این اے 266 (چمن کم، قلعہ عبداللہ) شامل ہیں۔صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں پی بی 1 (شیرانی کم ذوب)، پی بی 2 (ذوب)، پی بی 5 (لورالائی)، پی بی 6 (دوکی)، پی بی 10 (ڈیرہ بگھٹی)، پی بی 15 (صحبت پور)، پی بی 18 (خضدار 1)، پی بی 19 (خضدار2)، پی بی 24 (گوادر)، پی بی 26 (کیچ 2)، پی بی 29 ( پنجگور 1)، پی بی 30 (پنجگور 2)، پی بی 31 (عشوق)، پی بی 32 (چاغی)، پی بی 33 (خاران)، پی بی 35 (سوراب)، پی بی 39 ( کوئٹہ 2)، پی بی 44 (کوئٹہ 7 )، پی بی 45 ( کوئٹہ 8 )، پی بی 46 ( کوئٹہ9) پی بی 51 ( چمن) شامل ہیں جہاں سے کسی خاتون نے عام انتخابات 2024 میں حصہ نہیں لیا۔

بلوچستان ویمن ونگ کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ثنا ءدرانی پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک ہیں اور پی بی 43سے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے سیاسی دوڑ میں شامل ہیں۔ انہوں نے سنو نیوزسے بات کرتے ہوئےبتایا کہ ہم لوگ مذہبی اور قبائلی برادری سسٹم کے تحت زندگی گزارتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ہمارے ہاں پیراشوٹرز بہت آسانی سےزمین پر اتر آتے ہیں۔یعنی جو خواتین ورکر یا عہدیدار کی حیثیت سےکسی سیاسی جماعت کی خدمت انجام دیتی ہیں انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جاتا بلکہ نواب یا سردارخاندان سے منسلک خواتین کو ہی آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔

ثنا ءدرانی نے خواتین کی سیاست سے دوری کی ایک اہم وجہ بتائی کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو ایسے حلقوں سے معاونت فراہم نہیں کرتیں جہاں پر ان کا ووٹ بینک زیادہ ہو۔ شرح خواندگی اورسیاسی شعورکی کمی کے باعث بلوچستان میں خواتین کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابرہے۔

شمالی وزیرستان پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی حالات مختلف نہیں ہیں ۔ تعلیم کی کمی اور قبائلی نظام کے باعث یہاں بھی خواتین سیاست سے دور نظرآتی ہیں۔ پی کے 103 اور پی کے 104 سے کسی خاتون نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ جبکہ این اے 40 سے پہلی بار ایک خاتون قومی اسمبلی کی نشست کیلئے میدان میں اتری ہے۔

خیبر پختونخوا کے قومی اسمبلی کےحلقوں این اے 36(ہنگو) ، این اے 37 (کرم ) اور این اے 12 کوہستان، این اے 13 بٹگرام، این اے 14 (مانسہرہ 1)، این اے20، این اے25، این اے27، این اے43 میں خواتین کی عدم شرکت رہی۔ہزارہ ڈویژن کے، پی کے38 (مانسہرہ -30) ، پی کے 32 (کوہستان)، پی کے34 (بٹگرام)، پی کے35 (بٹگرام 2) ، نوشہرہ کے، پی کے86، لوئردیرکے این اے6، این اے7، پی کے14، پی کے15، پی کے17، پی کے18،مہمند کے این اے26، پی کے67، پی کے68، بنوں کی پی کے99، پی کے102سے بھی خواتین نے فارم جمع نہیں کروائے۔ اسی طرح لکی مروت کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں پی کے 105،پی کے 106، پی کے 107 اور ضلع کرک کی پی کے 97 بھی خواتین کی شرکت سے محروم ہیں۔سوات کے4 قومی اسمبلی کے حلقے این اے 2، این اے3، این اے4 اور این اے5 اور ڈیرہ اسماعیل خان کےدو قومی حلقے این اے 44 اور این اے45 اور صوبائی اسمبلی کی، پی کے109، پی کے114، پی کے115 میں بھی خواتین نے حصہ نہیں لیا۔سندھ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے167 ، این اے212، این اے214، این اے215 اور صوبائی اسمبلی کے ، پی ایس 48، پی ایس 52، پی ایس 53، پی ایس 54، پی ایس 55سے بھی کوئی خاتون نمائندگی کیلئے آگے نہ بڑھ سکی۔

پنجاب کی بات کی جائے تو یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ ہے۔یہاں شرح خواندگی 66 فیصد ہے۔ اور شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی میں خواتین کاکردار پیش پیش ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں خواتین سیاسی میدان سے دور نظر آتی ہیں۔ اس میں ننکانہ کی پی پی 133، فیصل آباد کی پی پی 100 اور پی پی 104، خانیوال کی پی پی 205، پی پی 206، پی پی 208، پی پی 209، پی پی 210 شامل ہیں۔ ملتان کے 8 صوبائی حلقے پی پی 213، پی پی 214، پی پی 218، پی پی 219، پی پی 220، پی پی 221، پی پی 222، پی پی224 میں بھی خواتین نمائندگی نہیں ہے۔وہاڑی کے این اے159(میلسی)، بہاولنگر کے این اے161 اور خانیوال کے4قومی اسمبلی کے حلقے این اے 144، این اے145، این اے146 اور این اے147 جبکہ ملتان کے 5 قومی اسمبلی کے حلقے این اے 149، این اے150،این اے151، این اے152، این اے153 میں بھی خواتین کی طرف سے کاغذات جمع نہیں کروائے گئے۔سرگودھا ڈویژن میں قومی اسمبلی کے 4حلقے این اے86،این اے88، این اے91، این اے92 میں بھی خواتین سیاسی دوڑ سے باہر رہیں۔پنجاب کے دو قومی حلقے این اے49، این اے75، بہاولپور کےاین اے164، این اے167،رحیم یار خان کا این اے 170،این اے172، سیالکوٹ کے 3 قومی حلقےاین اے71، این اے72، این اے74 اور صوبائی اسمبلی کی 6 نشستوں پی پی 45، پی پی 46، پی پی 47، پی پی 48، پی پی 51 اور پی پی 53میں بھی خواتین انتخابات میں شامل نہ ہوسکیں۔ گجرانوالہ کے 4 قومی حلقے این اے 77، این اے79، این اے80 ، این اے 81 اور 10صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 61، پی پی62، پی پی63، پی پی64، پی پی65، پی پی66، پی پی67، پی پی68، پی پی69 اور پی پی 70 میں بھی خواتین کی نمائندگی نظر نہیں آئی۔

ان اعداد وشمار کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہوگاکہ معاشرے کی تعمیرو ترقی کےلئے خواتین کے کلیدی کردار کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جس کیلئے خواتین کی بہتررہنمائی اور برابری کی سطح پر مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اسی صورت ہم ایک خودمختارمعاشرے کےخواب کوشرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔