اسرائیل مختصرجنگ بندی پررضامند
Image

غزہ: (سنو نیوز) مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں اہم پیشرفت۔ قطر کی ثالثی کی کوششوں کے بعد اسرائیل مختصرجنگ بندی پررضامندہوگیا۔ دس سے پندرہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے سیز فائر کے لیے مذاکرات جاری تھے۔

ترجمان امریکی سیکیورٹی کونسل جان کربی کہتے ہیں کہ جنگ بندی یومیہ چار گھنٹےکیلئےہوگی۔۔ شمالی غزہ سے انخلا کیلئے دو راہداریاں استعمال ہوں گی۔غزہ میں روزانہ ڈیڑھ سو امدادی ٹرک لانےکی کوشش کریں گے۔۔ غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداددس ہزار آٹھ سو بارہ ہوچکی ہیں۔

واضح رہے کہ حماس، اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے قطر ثالثی کی کوشش کر رہا تھا، مختصرجنگ بندی کے لیے 10 سے 15 یرغمالیوں کی رہائی پر بات جاری ہے۔ ان یرغمالیوں میں 6 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے حماس ذرائع کا کہنا ہے کہ 3 روزہ جنگ بندی کا مقصد غزہ میں امداد پہنچانا ہے۔

خیال رہے کہ غزہ میں 33 روز سے جاری اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ساڑھے 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی جارحیت سے مزید 214 فلسطینی شہید ہوئے، جس کے بعد 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونے والے افراد کی تعداد 10 ہزار 569 ہوگئی ہے۔

عرب میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وحشیانہ حملوں سے غزہ میں ہر روز اوسطاً 136 بچے شہید ہونے لگے، غزہ کے بچوں کی یومیہ اموات حالیہ ہونے والے دنیا کے کسی بھی تنازع میں بچوں کی اموات سے سیکڑوں گنا بڑھ گئی ہیں۔

ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین نامی این جی او نے بتایا کہ 1967 سے 7 اکتوبر 2023 سے قبل مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جتنے بچے شہید ہوئے، اس دوگنا زیادہ بچے ایک ماہ کے دوران شہید ہوچکے ہیں۔ این جی او کے مطابق 1350 بچے ابھی بھی عمارات کے ملبے تلے موجود ہیں اور ان میں بیشتر ممکنہ طور پر شہید ہو چکے ہیں۔

وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بمباری میں 193 طبی ورکرز شہید جبکہ 45 ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا ہے۔واضح رہے کہ 33 روز سے جاری اس جنگ کے باعث غزہ کے 15 لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب برطانیہ میں لیبر پارٹی کے ایم پی عمران حسین نے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

عمران حسین نے لیبرپارٹی لیڈر کئیر سٹارمر کے نام لکھے گئے استعفے میں کہا کہ بوجل دل کے ساتھ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں تاکہ کھل کر فلسطینیوں کے حق میں بات کرسکوں، غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کو غذائی قلت کے ساتھ ادویات کی کمی کا سامنا ہے، غزہ میں جنگ بندی کیلئے جاندار موقف پیش کرنا ہوگا، فوری طور پر ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء غزہ پہنچائی جائیں۔

غزہ میں محکمہ صحت کے مطابق اب تک 10400 لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ بھاری بمباری نے سول افرسٹرکچر کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ جس نے آنے والی فلسطینی نسلوں کے لیے سخت مصائب کا بیج بو دیا ہے۔

انسانی خدمت اور مدد کے بین الاقوامی ادارے ریڈ کراس نے غزہ میں بچوں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں کی پروا نہ کرنے کو اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی ناکامی قرار دی ہے۔ ریڈ کراس نے غزہ میں شہریوں پر بمباری کے طویل اور خوفناک ایک ماہ کو اب ختم کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ماہ کی اس بمباری سے بد ترین نقصان ہوا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اسے روکا جائے، پورا ایک ماہ اسرائیل اندھا دھند اور انتھک انداز میں غزہ کی شہری آبادی پر بمباری کرتا رہا اور بعد ازاں اس میں زمینی حملے کا اضافہ کر دیا۔

میں یرغمال بنایا گیا، انہیں جلد رہا کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ریڈ کراس کے سرجنز نے ایسے بچوں کی سرجری کی ہے جن کے جسم بہت زیادہ جل چکے تھے، زخمی اور ہلاک ہو چکے بچوں کی تصاویر ہم سب کو ہمیشہ تکلیف پہنچائیں گی۔ یہ ہماری سب کی اخلاقی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا ہم اس سارے تصادم میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ہم محض غیر جانبدار اداکار ہیں۔ ہم مستقبل کے لیے سہولتکاری کر سکتے ہیں کہ رہائی کے لیے آپریشن اور کوششوں کو آسان بنایا جا سکے۔ تاہم ہماری کوششیں جاری رہیں گی کہ حماس ریڈ کراس کے لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے افراد سے ملنے کی اجازت دے۔

ریڈ کراس نے معاملے کے تمام فریقوں سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ اس میں انسانی بنیادوں پر بنے قوانین بھی شامل ہیں جو تقاضا کرتے ہیں کہ فوجی آپریشن میں شہریوں کو کچھ نہ کہا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ میں اسرائیلی مظالم ، عالمی رہنما خاموش تماشائی

ریڈ کراس کی سربراہ نے کہا کہ زیر محاصرہ غزہ میں لوگ پانی اور خوراک سمیت ہر چیز سے محروم کر دیے گئے ہیں، ان کے لیے آنے والی امداد ان کے زندہ رہنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ریڈ کراس سربراہ نے ہسپتالوں اور ایمبولینسز پر بمباری کی مذمت کی اور کہا یہ ناقابل قبول ہے۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام حالات میں غزہ سے روزانہ تقریباً 100 مریض صحت کے پیچیدہ مسائل جیسے کینسر کے علاج اور اوپن ہارٹ سرجری کے لیے مشرقی بیت المقدس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے، اسرائیل اور دیگر ممالک میں لائے جاتے ہیں۔

سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ اور اسرائیل کی طرف سے غزہ کے مکمل محاصرہ کے نتیجے میں بند ہو ہونے کے بعد تحریر اور اس کے ساتھی یہاں سے علاج کروانے والے اپنے مریضوں سے فیس بک سمیت مختلف ذرائع سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دائمی امراض کے شکار مریضوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت بات پر زور دے رہا ہے کہ ایسے افراد کو علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ مصر، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک نے ان مریضوں کو علاج معالجہ کی فراہمی کی پیشکش کر رکھی ہے۔

یاد رہے کہ جنگ سے پہلے، ہر سال تقریباً بیس ہزار مریض کو علاج کی غرض سے غزہ کی پٹی چھوڑنے کے لیے اسرائیل سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی بچے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 2022 میں ان میں سے تقریباً 63 فیصد طبی درخواستوں کو منظور کیا تھا۔