
لاہور:(ویب ڈیسک) پاکستان اور ہندوستا ن سمیت دیگر ممالک میں پکوڑے اور رمضان، گویا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی مسلمان خاندان ہو گا جس کے افطار دسترخوان پر پکوڑے نہ پیش کیے گئے ہوں۔
افطار کا وقت اور شام کی چائے کا وقت ایک جیسا ہے۔پکوڑے ہر خاندان میں چائے کے ساتھ بنائے جاتے ہیں۔ لیکن پکوڑوں کی تاریخ کتنی پرانی ہے اس کے بارے میں مختلف دعوے ہیں۔ بی بی سی میں شائع دلچسپ رپورٹ کے مطابق عوامی طور پر دستیاب معلومات کے مطابق، پکوڑے 1025 عیسوی سے کسی نہ کسی شکل میں بنائے جاتے رہے ہیں۔
یہ سب سے پہلے سنسکرت اور تمل سنگم ادب میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس کی زیادہ تفصیل سے وضاحت نہیں کی گئی ہے، سوائے اس کے کہ وہاں کیک کی شکل کا کھانا ہوا کرتا تھا۔
پکوڑے کیسے شروع ہوئے؟
دالوں کو پیس کر سبزیوں میں ملا کر کیک جیسا مادہ بنایا جاتا تھا جسے تل کر کھایا جاتا تھا۔ لوگ اسے پکاوات کہتے ہیں، یعنی پکی ہوئی پکوڑی۔ہندوستان میں اسے کئی جگہوں پر بھجیا بھی کہا جاتا ہے۔
کھانے کی تاریخی کتابوں میں یہ ذکر ہے کہ مانسولاس 1130 میں شائع ہوا اور 1025 میں شائع شدہ لوکاپاکارا کہ بھجیا یا پکوڑے بنانے کے لیے سبزیوں کو چنے کے آٹے میں ملا کر تلا جاتا تھا۔
چنے کے آٹے کو آلو، پالک، پیاز، ہری مرچوں کے ساتھ خشک مصالحے کے ساتھ ملا کر پکوڑے بنائے جاتے تھے لیکن سوجی اور چاول کا آٹا بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
پکوڑے بیرون ملک کیسے پہنچے؟
بعض مقامات پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 16ویں صدی میں جب پرتگالی سمندری سفر کرتے ہوئے ہندوستانی ساحلوں پر آتے تھے تو اپنے سفر کے دوران عام طور پر ہندوستانی باورچیوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، جو انہیں تلی ہوئی سبزیاں جیسے آلو، پیاز، بیگن، ہری مرچ، چنے کے آٹے کے ساتھ پالک اور مصالحے کھلاتے تھے۔
پرتگالیوں کی وجہ سے ہی پکوڑے جاپان پہنچے۔ چونکہ جاپان میں چنا نہیں اگایا جاتا اس لیے وہاں کے لوگوں نے سبزیوں اور خشک مصالحوں کے ساتھ چنے کے آٹے کے بجائے آٹا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح جاپانی ٹیمپورا پیدا ہوا۔
ہندوستانی پاکستانی پکوڑے، جاپانی اور برطانوی پکوڑے اور بحیرہ روم کے ممالک کے فلافل، سب ایک دوسرے کے کزن لگتے ہیں۔ پکوڑوں کے لیے آٹا چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے، جب کہ فلافل کے لیے آٹے کو ابلے ہوئے چنے کو پیس کر تیار کیا جاتا ہے۔
رمضان میں پکوڑوں کا رجحان کیوں بڑھ گیا؟
بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق پکوڑوں کی تاریخ کھانے کی تاریخ میں نہیں ملتی بلکہ پکوانوں یعنی تلی ہوئی کھانوں کی تاریخ میں ملتی ہے۔ یہ چنے کے آٹے سے بنی ہوئی غذا ہے جو غذائیت سے بھرپور بھی ہے اور آپ اپنی پسندیدہ سبزیوں اور چٹنیوں کے ساتھ اس کا مزہ لے سکتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو روزہ یا افطاری کے دوران ہمارا دل چاہتا ہے کہ افطاری کے بعد اپنی پسندیدہ چٹپٹی اور میٹھی ڈشیں کھائیں۔
پکوڑا ایک ایسی ڈش ہے جو امیر و غریب ہر ایک کو آسانی سے دستیاب ہے۔ اس کی تیاری کے تمام اجزاء باورچی خانے میں آسانی سے دستیاب ہیں۔پکوڑے ہندوستان اور پاکستان میں بہت مقبول ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کے موسم کے لیے موزوں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے بنانے میں بہت زیادہ ورائٹی آئی ہے۔
رمضان کے دوران آپ کودسترخوان پر آلو چاٹ اورپکوڑے ملتے ہیں۔ پکوڑا ایک طرف مسالہ دار ذائقہ دیتا ہے تو دوسری طرف یہ روزہ داروں کے جسم میں سوڈیم اور پروٹین کی مقدار کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ برطانیہ میں ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کی بڑی تعداد ہے، اس لیے برطانیہ میں بھی پکوڑے بہت مشہور ہیں۔
404 - Page not found
The page you are looking for might have been removed had its name changed or is temporarily unavailable.
Go To Homepage